ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے (سعداللہ شاہ)

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے

تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب
تُو ایک عافیہ تنہا کھڑی ہے اک جانب

میں کیا کہوں تجھے اے عافیہ تُو ناداں ہے
یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تُو مسلماں ہے

ترا یہ جرم کہ تُو اس قدر ذہین ہے کیوں
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں نشین ہے کیوں

تری یہ جراتِ اظہار تیری دشمن ہے
بھلا تُو کس لیے امریکیوں سے بدظن ہے

ترے مزاج میں تلخی بھری بغاوت ہے
ترے عمل سے ہویدا تری شجاعت ہے

تجھے یہ عدل ملا ہے نہ یہ عدالت ہے
یہ اہلِ حق سے فقط کفر کی عداوت ہے

سو ظلم و جبر کی طاقت تجھے جھکا نہ سکی
صراطِ حق سے ذرا سا تجھے ہٹا نہ سکی

پہاڑ ظلم کے تجھ پر جو آہ ٹوٹے ہیں
ہر ایک آنکھ سے رہ رہ کے اشک پھوٹے ہیں

گلہ میں کیسے کروں اپنے حکمرانوں سے
نہیں ہے اٹھنے کا یہ بوجھ ان کے شانوں سے

یہ بے بصر ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا
جو راہبر ہے وہی راہ پر نہیں آتا

نہ اشک آنکھ میں‌باقی نہ دل ہے سینے میں
ہے فرق کیا مرے مرنے میں اور جینے میں

یہ چند لفظ ہیں تیرے لیے مری بہنا
مجھے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں‌کہنا

یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے

(سعداللہ شاہ)​
 
شناور بھائی
آپ کا یہ انتخاب میں نےمیگزین میں شامل کر دیا تھا دیکھئے
6su9lk.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے

عید الفطر سے قبل --- عافیہ صدیقی ۔۔۔ قوم کی بیٹی کی یاد میں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے

عید الفطر سے قبل --- عافیہ صدیقی ۔۔۔ قوم کی بیٹی کی یاد میں۔​
 

rahmat khan

محفلین
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے

تمام کفر کی دنیا کھڑی ہے اک جانب
تُو ایک عافیہ تنہا کھڑی ہے اک جانب

میں کیا کہوں تجھے اے عافیہ تُو ناداں ہے
یہ جرم کافی ہے تیرا کہ تُو مسلماں ہے

ترا یہ جرم کہ تُو اس قدر ذہین ہے کیوں
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں نشین ہے کیوں

تری یہ جراتِ اظہار تیری دشمن ہے
بھلا تُو کس لیے امریکیوں سے بدظن ہے

ترے مزاج میں تلخی بھری بغاوت ہے
ترے عمل سے ہویدا تری شجاعت ہے

تجھے یہ عدل ملا ہے نہ یہ عدالت ہے
یہ اہلِ حق سے فقط کفر کی عداوت ہے

سو ظلم و جبر کی طاقت تجھے جھکا نہ سکی
صراطِ حق سے ذرا سا تجھے ہٹا نہ سکی

پہاڑ ظلم کے تجھ پر جو آہ ٹوٹے ہیں
ہر ایک آنکھ سے رہ رہ کے اشک پھوٹے ہیں

گلہ میں کیسے کروں اپنے حکمرانوں سے
نہیں ہے اٹھنے کا یہ بوجھ ان کے شانوں سے

یہ بے بصر ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا
جو راہبر ہے وہی راہ پر نہیں آتا

نہ اشک آنکھ میں‌باقی نہ دل ہے سینے میں
ہے فرق کیا مرے مرنے میں اور جینے میں

یہ چند لفظ ہیں تیرے لیے مری بہنا
مجھے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں‌کہنا

یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے
کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے

(سعداللہ شاہ)
کاش اس عقیدت مندانہ جذبات کے لئے عافیہ صدیقی کا خاوند بھی شامل ہوتا۔ وہ بھی پکا مسلمان ہے۔ اور عافیہ کے بچوں کا باپ بھی ہے۔ اس کی گواہی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم اس قسم کے جذباتی باتوں سے اتنا دھوکہ کھا چکے ہیں کہ اب پانی بھی پُن کر پیتے ہیں۔
 
Top