ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے ملاقات

عاطف بٹ

محفلین
72288_21766193.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات
ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرہ نمبر 5 میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5 بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔محبت اور احترام و اشتیاق کی(سے) نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی ، اوور کوٹ ، مفلر ، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی ، داڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ۔ ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان ، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھی جوانوں کی طرح ، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔
علیک سلیک ہوئی۔ چند خیر مقدمی جملوں کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ زحمت کرکے یہاں پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب ثقل سماعت کے سبب اونچا سنتے ہیں ، مگر گفتگو آہستہ آہستہ اور دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔
خیر خیریت اور احوال پرسی کے بعد ،ہمارے استفسارات پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا :
"چالیس سال سے یہاں ہوں۔۔۔ میری شہریت فرانس کی نہیں ، حیدر آباد کی بھی نہیں ، بے وطن ہوں ۔ میرے پاس کسی ملک کا پاسپورٹ نہیں ۔ بس ٹریولنگ پیپرز ہیں ، جو فرانسیسی حکومت نے دئیے ہیں ، ان پر سفر کرتا ہوں"
سوال:فرانس کی شہریت کے لئے آپ نے کبھی مطالبہ نہیں کیا؟
جواب: نہیں ، معلوم نہیں کیوں؟ لیکن بہرحال کبھی نہیں کیا۔
فرانس میں اسلام اور نومسلموں کا ذکر چل نکلا۔ کہنے لگے " جی ہاں ، بلا مبالغہ میرے ہاتھ پر سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ان میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ ، پروفیسر ، عالم فاضل لوگ ، کچھ سفیر بھی ، نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔الحمد للہ ۔ ان میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمارے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کیا جائے اور اگر ضرورت ہو تو بلا اجازت ہمارا نام نہ دیں۔
مرزا صاحب: کیا ان کے بچے بھی مسلمان ہو جاتے ہیں؟
جواب: جی ہاں ، ان کا " فور نیم" بھی ہوتا ہے ، جو اسلامی ہوتا ہے یعنی عبد اللہ ، عبد الرحیم وغیرہ ، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ ویسے میں کہتا ہوں کہ بچے ماں باپ کے نگران نقال مقلد ہوتے ہیں ۔ اگر ماں باپ اسلام پر عمل کرتے ہیں تو بچے از خود تقلید کرتے ہیں ۔ ان کے بہکنے کا امکان کم ہوتا ہے ، لیکن اگر ماں باپ خود عمل نہ کرتے ہوں اور چاہیں کہ بچے اولیاء اللہ بن جائیں تو ۔۔۔۔
کیا آپ کبھی علامہ اقبال سے بھی ملے ؟
ڈاکٹر حمید اللہ: پہلی بار لاہور آیا تو اقبال زندہ تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ وہ لیٹے رہتے تھے۔ نئے ملاقاتی آتے۔ سلام کرتے ، کچھ دیر بعد چلے جاتے۔ اجازت کا کوئی سوال نہ تھا۔ دربار عام تھا۔ اسی طرح میں بھی ایک دوست کے ساتھ ان کے ہاں گیا۔
پروفیسر محمد منور: ڈاکٹر صاحب یہ کون سے سن کی بات ہے؟ 37 ء کی بات ہوگی؟
ڈاکٹر حمید اللہ: بہت پرانی بات ہے۔ 1932 ء کی بات ہوگی۔ اس وقت صحیح طور پر یاد نہیں
پروفیسر محمد منور: ان سے کوئی بات ہوئی؟
ڈاکٹر حمید اللہ: بس مختصر سی ، میں نے کہا : مجھے قانون میں دلچسپی ہے ، فیکلٹی آف لا کا طالب علم ہوں تو کہنے لگے : یہ بڑی اہم چیز ہے ، اس میں تلاش اور کوشش جاری رکھو۔ اس وقت ان کے پاس کچھ اور دوست اور رفیق بھی موجود تھے۔ منشی طاہر دین بھی تھے-
اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔ راقم نے پو چھا:
ڈاکٹر صاحب ، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟
ڈاکٹر حمید اللہ : فرمائش نہیں ، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا ۔ اجازت لی
پروفیسر محمد منور : جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ آئے ہوئے تھے ، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمید اللہ نے فرانسیسی میں کیا ہے
ڈاکٹر حمید اللہ: جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔
(پوشیدہ تری خاک میں --- از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)
 

عاطف بٹ

محفلین
ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات​
ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرہ نمبر 5 میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5 بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔محبت اور احترام و اشتیاق کی(سے) نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی ، اوور کوٹ ، مفلر ، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی ، داڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ۔ ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان ، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھی (؟ ، ڈاکٹر محمد حمید اللہ اس دارِ فانی سے کوچ کر چکے) جوانوں کی طرح ، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔​
نظامی بھائی، آج کے اخبار میں شائع ہونے والا ایک ملاقات کا یہ احوال درحقیقت ایک کتاب سے لیا گیا اقتباس ہے جس کا ذکر آخری سطر میں موجود ہے اور یہ ”آج بھی“ اس وقت کے بارے میں کہا گیا ہے جب وہ ملاقات ہوئی تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نظامی بھائی، آج کے اخبار میں شائع ہونے والا ایک ملاقات کا یہ احوال درحقیقت ایک کتاب سے لیا گیا اقتباس ہے جس کا ذکر آخری سطر میں موجود ہے اور یہ ”آج بھی“ اس وقت کے بارے میں کہا گیا ہے جب وہ ملاقات ہوئی تھی۔
درست ہے۔ اس بات کا احساس بعد میں ہوا کہ یہ اقتباس ہے۔ بہت شکریہ۔
 

نایاب

لائبریرین
حق مغفرت فرمائے آمین
بلا شک اک عظیم ہستی تھے محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب
بہت شکریہ بٹ بھائی شریک محفل اردو کرنے پر
محترم الف نظامی بھائی جزاک اللہ خیراء
 

تعبیر

محفلین
ٹیگ تو ایسے دھڑلے سے کیا کہ میں سمجھی کہ میل ملاقات کے شوقین بٹ صاحب خود
ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے ملاقات کر آئے ہیں اور اسی کا حال احوال لکھا ہے :ROFLMAO::p:ROFLMAO:
 

عاطف بٹ

محفلین
ٹیگ تو ایسے دھڑلے سے کیا کہ میں سمجھی کہ میل ملاقات کے شوقین بٹ صاحب خود
ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے ملاقات کر آئے ہیں اور اسی کا حال احوال لکھا ہے :ROFLMAO::p:ROFLMAO:
خواہش تو بہت شدید تھی ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی مگر وہ ذرا جلدی میں تھے اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ بٹ بیٹا اب ’آگے‘ ہی ملاقات ہوگی!
 

تعبیر

محفلین
خواہش تو بہت شدید تھی ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی مگر وہ ذرا جلدی میں تھے اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ بٹ بیٹا اب ’آگے‘ ہی ملاقات ہوگی!
آگے بولے تو؟وہ اب نہیں ہیں اس دنیا میں؟
آپ بھی نا کس جاہل (یعنی تعبیر )کو ٹیگ کرتے ہیں جس کو کسی کا کچھ پتہ ہی نہیں :(
ویسے مجھے یہ بھی اب پتہ لگا کہ دنیا نیوز پیپر بھی ہے ۔
 

تعبیر

محفلین
ہم تو اسے ناقص و جاہل پڑھتے رہے۔ ہماری درستگی کیجئے کہ یہ مرکب اصل میں کیسے لکھا جاتا ہے۔
اف اتنی مشکل اردو اور اتنا مشکل سوال :confused:
میں نے تو خود کو جاہل کہا ہے صرف
اپنا نک اس لیے لکھ دیا کہ پتہ نہیں کس کس کو ٹیگ کیا گیا ہو اور بعد میں پتہ نہیں کیا صورت حال ہو جائے :ROFLMAO:
 
اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔ راقم نے پو چھا:
ڈاکٹر صاحب ، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟
ڈاکٹر حمید اللہ : فرمائش نہیں ، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا ۔ اجازت لی
پروفیسر محمد منور : جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ آئے ہوئے تھے ، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمید اللہ نے فرانسیسی میں کیا ہے
ڈاکٹر حمید اللہ: جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔
(پوشیدہ تری خاک میں --- از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)
پرسوں یعنی 6 دسمبر کے نوائے وقت میں جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا ذکر تھا۔ بابری مسجد والےمضمون میں۔ مسجد کی نوحہ خوانی بھی تھی۔ ان کی نظم کی صورت میں۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2012-12-06/page-13
ڈاکٹر حمید اللہ کا تو تعارف بھی شاید آج ہوا مجھے۔ بٹ صاحب اور الف نظامی صاحب کی محبتوں کا شکریہ
 

الف نظامی

لائبریرین
پرسوں یعنی 6 دسمبر کے نوائے وقت میں جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا ذکر تھا۔ بابری مسجد والےمضمون میں۔ مسجد کی نوحہ خوانی بھی تھی۔ ان کی نظم کی صورت میں۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/lahore/2012-12-06/page-13
ڈاکٹر حمید اللہ کا تو تعارف بھی شاید آج ہوا مجھے۔ بٹ صاحب اور الف نظامی صاحب کی محبتوں کا شکریہ
بابری مسجد
آنجہانی جگن ناتھ آزاد کا تعلق تقسیم برصغیر سے قبل ضلع میانوالی سے تھا۔ ان کے والد تلوک چند محروم اردو کے معروف شاعر تھے اور ان کی نظمیں خاص طور پر مقبرہ نور جہاں اور دریائے سندھ بہت مشہور ہوئی تھیں۔ جگن ناتھ آزاد بھارت میں سب سے بڑے ماہر اقبالیات تھے۔ ان کا عشق رسول میں ڈوبا نعتیہ کلام ، حمدوثنا اور بزرگان دین سے ان کی عقیدت دیکھ کر یہ گمان کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ کسی ہندو کے جذبات ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت پر جگن ناتھ آزاد نے ایک جذباتی اور تاثراتی نظم تحریر کی تھی ، جو ان کے مجموعہ کلام ”نسیم حجاز“ میں شامل ہے۔​
یہ تو نے ہند کی حرمت کے آئینے کو توڑا ہے​
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے​
ہمارے دل کو توڑا ہے عمارت کو نہیں توڑا​
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے​
ترے اس فعل سے اسلام کا تو کچھ نہیں بگڑا​
مگر گھونپا ہے خنجر تو نے ہندو دھرم کے دل میں​
ادھر ہندوستان کا تو نے چہرہ مسخ کر ڈالا​
ادھر بوئے ہیں کانٹے تو نے اس کی راہ منزل میں​
خبر کل تک بس اتنی تھی کہ گنبد ایک ٹوٹا ہے​
کھلی اب بات مسجد کا نہیں چھوڑا نشان باقی​
وہ تہذیبی تسلسل جو تھا جاری چار صدیوں سے​
تو سمجھا ہے نہ رہ جائے گی اس کی داستاں باقی​
میں اک گنبد کو روتا تھا مگر اب یہ کھلا مجھ پر​
گرا ڈالا ہے اس ساری عبادت گاہ کو تو نے​
دیا تھا اک دل آگاہ تجھ کو دینے والے​
یہ کس رستے پہ ڈالا ہے دل آگاہ کو تو نے​
مروت جس کو کہتے ہیں مودت جس کو کہتے ہیں​
یہ مسجد اس مروت اس مودت کی علامت تھی​
خدا کے گھر کو جب تو منہدم کرنے کو نکلا تھا​
خدا جانے ترے دل میں خیال خام کیا ہوگا​
مکافات عمل کہتے ہیں جس کو اک حقیقت ہے​
شقی القلب کیا کہئے ترا انجام کیا ہوگا​
یہ مسجد آج بھی زندہ ہے اہل دل کے سینوں میں​
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا پیکر توڑنے والے​
ابھی یہ سرزمین خالی نہیں ہے نیک بندوں سے​
ابھی موجود ہیں ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے​
 

عاطف بٹ

محفلین
آگے بولے تو؟وہ اب نہیں ہیں اس دنیا میں؟
آپ بھی نا کس جاہل (یعنی تعبیر )کو ٹیگ کرتے ہیں جس کو کسی کا کچھ پتہ ہی نہیں :(
ویسے مجھے یہ بھی اب پتہ لگا کہ دنیا نیوز پیپر بھی ہے ۔
جی، ڈاکٹر صاحب 17 دسمبر 2002ء کو امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر جیکسن وِل میں 95 برس کی عمر میں فوت ہوئے تھے۔
انشاءاللہ 17 دسمبر کو ان کی دسویں برسی کے موقع پر ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک دھاگہ شروع کروں گا۔
 
Top