ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
ڈاکٹر مشاہد رضوی کی ۵کتابوں کے شناخت نامے
از قلم: مفتی محمد توفیق احسنؔ مصباحی ،نوی ممبئی
(۱) کتاب: ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (۲) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ
(۳) میلاد النبی اور علماے عرب (۴)شیر میسور ٹیپو سلطان
(۵)جگا ڈاکو اور جادوئی غار
فروری ۲۰۱۲ء میں ہم نے ڈاکٹر مُشاہد رضوی کی چھ کتابوں پر مختصر تبصرہ تحریر کیا تھا۔ ’’ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ‘‘ رہ نماے نظامت، گلشن اقوال، عملی قواعدِاردو، اقلیم نعت کا معتبر سفیر سید نظمی مارہروی اور پھنس گیا کنجوس‘‘۔ ابھی ان کتابوں کی اشاعت کو چھ ماہ بھی پورے نہ ہوئے کہ ان کی مزید پانچ کتابیں رحمانی پبلی کیشنز مالیگاؤں اور ادارۂ دوستی مالیگاؤں سے طبع ہوکر منظر عام پر آگئی ہیں اور اس وقت اپنی تمام تر افادیت اور معنویت کا اعلان کرتی ہوئی راقم کے مطالعے کی میز پر ہیں۔ ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے جب سے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے اور انھیں ۔۔ ’’مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے ، انھوں نے اپنے مطالعہ اور قلم دونوں کو انقلاب آفرین نغمات کا اسیر بنالیا ہے۔ تحقیق، تنقید، شاعری ، ترجمہ نگاری اور تاریخ نویسی ، کئی میدانوں میں اپنا اشہبِ قلم سر پٹ دوڑارہے ہیں اور مذہب ، ادب اور فن سب کو مالامال کررہے ہیں ۔ کلاسیکی شاعری بھی ان کے عمیق مطالعے کی گرفت میں ہے اور تنقید کے ہیئتی و لسانی مبادیات سے بھی آشنائی ہے۔ اس وقت موصوف رحمانی پبلی کیشنز کی شخصیات سیریز لکھنے میں مشغول ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ اور زیرِ نظر تین کتابیں ۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ، اور شیر میسور ٹیپو سلطان ۔‘‘ اس کا ثبوت ہیں ۔
مُشاہدؔ رضوی پر زود نویسی کا الزام ضرور تھوپا جاسکتا ہے لیکن ان کی کتابیں پڑھ کر قطعاً یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انتہائی جلد بازی میں انھوں نے غیر تحقیقی باتوں ، غیر معیاری جملوں یا بے ضرورت مباحث سے اپنی کسی تحریر کو بوجھل ہونے دیاہو۔ وہ اپنی ہر تحریر میںادب اور فن کو موضوع کے شانہ بہ شانہ لے کر چلتے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے اسلوب ، محققانہ اور ادبیت کی چاشنی سے بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اپنے قاری پر کوئی بات زبردستی تھوپتے نہیں بلکہ معروضی انداز میں حقائق کا انکشاف کرتے جاتے ہیں اور ان سے پند ونصیحت کا پہلو نکلتا رہتا ہے۔ وہ’’ ۔ادب براے ادب ‘‘ کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے بل کہ’’ ادب براے زندگی ‘‘ کی ترنگ ان کی ہر تحریر سے نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ کتابیں ہر عمر کے لوگ پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں بچوں کے ذہن وفکر کابھی خاص خیال برتا گیا ہے۔ آسان جملوں میں ساری باتیں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے بھی مولانا اسماعیل میرٹھی کی ادبِ اطفال پر تحریر کی گئی کتابیں پڑھی ہوں گی مُشاہدؔ رضوی کی یہ کتابیں پڑھ کروہ ضرور اس بات کی توثیق کرسکتے ہیں ۔
سیرت و سوانح کے باب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کی حیات اور ان کی خدماتِ جلیلہ کو جلی حرفوں میں جگہ دی گئی ہے اور ان کے کردار و اخلاق کے روشن پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی سیرت اور کردار پر علیٰ الترتیب ۳۲؍اور ۶۴؍ صفحات پر مشتمل مُشاہدؔ رضوی کی یہ دونوں کتابیں اس اعتبار سے ضرور اہم ہیں کہ ان کی تالیف میں جہاں حقائق کی پیش کش کا لحاظ رکھا گیا ہے وہیں بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اس لیے ان دونوں کتابوں کو اگر ازواجِ مطہرات کی حیات و خدمات پر کوئی گران قدر اضافہ قرار نہ دیا جائے تب بھی آسان اردو زبان میں ہر شخصیت پر الگ الگ کوئی کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری اس لیے اس کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جن میں نام و نسب ، خاندان، ولادت ، بچپن ، تعلیم و تربیت، نکاح ، ہجرت ، مقام و مرتبہ ، روایتِ حدیث، گھریلوی زندگی ، خصوصیات، علوم و فنون میں مہارت ، ایثار و قربانی ، حق گوئی ، زہد پسندی، سخاوت و مروت ، دینی و ملی خدمات اور وفاتِ حسرت آیات کو مختصراً بیان کی گیا ہے ۔ مُشاہدؔ رضوی نے ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ان(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ۔ علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے۔‘‘ (پیش لفظ ص۴) ۔ اس طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے متعلق نام و نسب، نکاح سابق، شرافت و نجابت، تجارت ، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ازدواجی زندگی، اسلام، مالی قربانی ، اولاد ، فضائل ومناقب اور وصال پر انتہائی جامعیت کے ساتھ لکھا ہے ۔ البتہ پیشِ لفظ میں انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ حضرت خدیجۃ الکبرایٰ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال تک رہیں ، پندرہ سال اعلانِ نبوت سے پہلے اور دس سال اعلانِ نبوت کے بعد۔‘‘ص(۴)اور ص ۱۲؍ لکھتے ہیں کہ : ’’ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چوبیس سال رہیں جب آپ کی وفات ہوئی تو عمر شریف اکسٹھ سال سال اور دوسری روایت میں پینسٹھ سال تھی۔‘‘
ایک خالی الذہن قاری کو یہاں دھوکا ہوسکتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رفاقت کی مدت کتنی تھی جب کہ اس کتاب میں رفاقت کی مدت کہیں پچیس سال اور کہیں چوبیس سال درج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ پچیس سال کے قائل ہیں اور بعض نے چوبیس سال لکھا ہے(دیکھیے مدارج النبوۃ : ج ۲، ص ۷۹۸) مذکورہ کتاب میں کہیں یہ وضاحت ہونی ضروری تھی تاکہ قاری کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔
تاریخی شخصیات سیریز کی ایک کڑی ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی تیسری کتاب’’ ۔شیر میسور ٹیپو سلطان ‘‘ بھی ہے۔ ٹیپو سلطان اور ان کے والد سلطان حیدر علی کانام ہندوستان کی تاریخ میں ’’نقشِ کالحجر‘‘ کی مانند ہے۔ تاریخ آزادیِ ہند ان دونوں کے تذکرے کے بغیر قطعی نامکمل مانی جاتی ہے۔ مؤلف ِ کتاب نے سلطان ٹیپو کی حیات و خدمات کو پورے مالہ و ما علیہ کے ساتھ مربوط انداز میں بیان کیا ہے۔ سلطان ٹیپو کا ایک جملہ آج بھی گونج بناہوا ہے۔’’گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘ سلطان نے خون کا آخری قطرہ بھی ہندوستان کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ بڑازیرک اور جواں سال مردِداناتھا جس کی بہادری اور بلند ہمتی ضرب المثل بن چکی ہے اس لیے یہ کہنا کہ ’’بے چارے سلطان ٹیپو کی یہ مجبوری تھی کہ وہ زندگی بھر غداروں اور نمک حراموں کی سازشوں سے بے خبر رہے۔‘‘(ص ۵۱)بھلا نہیں معلوم ہوتا ۔ شہادت اور بظاہر شکست کے بعد بھی ’’ٹیپو سلطان ، ایک زندۂ جاوید کردار بن کر ابھرا ہے‘‘۔ اور ’’میرصادق‘‘ نمک حرامی اور دغا بازی کا استعارہ بن چکا ہے۔ جو کچھ بھی ہے ، مُشاہدؔ رضوی کی یہ کتاب اپنے موضوع پر اردو زبان میں ایک بھر پور کتاب ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
ڈاکٹرمُشاہدؔ رضوی نے اس سے قبل ’’پھنس گیا کنجوس‘‘ کے نام سے ہندوی اور مراٹھی ادب سے ترجمہ شدہ کہانیوں کا ایک مجموعہ پیش کیا تھا’’جگا ڈاکو اور جادوئی غار‘‘ نامی کتاب بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بچوں کے لیے دل چسپ ہندی اور مراٹھی ادب سے ۲۷؍ کہانیوں کا اردو ترجمہ بڑی عمدگی اور مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ جملوں میں الجھاو بالکل نہیں ہے۔ پلاٹ ،کردار، مکالمہ بڑا دل نشیں اورع اسلوب بیانیہ ہے۔ یہ کتاب ادب ِ اطفال میں ایک اضافہ قرار دی جائیگی۔ امید ہے کہ یہ کتاب بھی کافی پڑھی جائے گی۔ البتہ چند جملے نظر ثانی کے محتاج ہیں، مثلاً :’’ یکایک ان کے کانوں میں دھیمی سے آواز آئی۔‘‘(ص ۷) ، جگا کو زندہ یا مردہ گرفتاری پر راجا نے ڈھیر سارے انعامات کا اعلان کیا تھا۔‘‘(ص ۱۹)، ’’ایک بچھو میں پانی بہتا ہوا دکھائی دیا۔‘‘(ص ۴۴) ، ساتھ تازہ خون کے دھبے بھی دکھائی سے ایسا لگتا تھا کہ۔۔‘‘(ص۶۷)
ان جملوں میں غور کرنے سے ہی ان میں در آئی غلطی کااحساس ہوجاتاہے بہت ممکن ہے یہ پروف کی خامی ہو۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں ان پر توجہ دی جائے گی۔ ویسے اس مجموعے کی سب سے عمدہ کہانی ’’رنکو کی ضد‘‘ قرار دی جائے گی جس میں ایک ضدی بچّے کو اخیر میں اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ میری بے جا ہٹ اور ضد کی بدولت پورے گھر والوں کو سزا جھیلنی پڑ رہی ہے۔ یہ چاروں کتابیں رحمانی پبلی کیشنزمالیگاؤں سے چھپی ہیں۔
ڈاکٹر مُشاہد رضوی کی زیرِ تبصرہ پانچویں کتاب حضرت مولانا محمد صدیق ہزاروی کی تفصیلی تحریر کی تلخیص و ترتیب جدیدہے۔ یہ کتابچہ محض سولہ صفحات کو محیط ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علماے عرب کے خیالات و معمولات پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے ۔ جسے ادارہٗ دوستی مالیگاؤں نے شائع کیاہے۔ ان پانچوں کتابوں کی تالیف پر ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی دلی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اخیر میں باذوق قارئین سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ضرور ان کتابوں کو اپنے مطالعے کی میز پر سجائیں اور دوستوںاور بچوں کو تحفہ دیں اور مُشاہدؔ رضوی کے لیے یہ بھی کہ ؎ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
از قلم: مفتی محمد توفیق احسنؔ مصباحی ،نوی ممبئی
(۱) کتاب: ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ (۲) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ
(۳) میلاد النبی اور علماے عرب (۴)شیر میسور ٹیپو سلطان
(۵)جگا ڈاکو اور جادوئی غار
فروری ۲۰۱۲ء میں ہم نے ڈاکٹر مُشاہد رضوی کی چھ کتابوں پر مختصر تبصرہ تحریر کیا تھا۔ ’’ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ‘‘ رہ نماے نظامت، گلشن اقوال، عملی قواعدِاردو، اقلیم نعت کا معتبر سفیر سید نظمی مارہروی اور پھنس گیا کنجوس‘‘۔ ابھی ان کتابوں کی اشاعت کو چھ ماہ بھی پورے نہ ہوئے کہ ان کی مزید پانچ کتابیں رحمانی پبلی کیشنز مالیگاؤں اور ادارۂ دوستی مالیگاؤں سے طبع ہوکر منظر عام پر آگئی ہیں اور اس وقت اپنی تمام تر افادیت اور معنویت کا اعلان کرتی ہوئی راقم کے مطالعے کی میز پر ہیں۔ ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے جب سے اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے اور انھیں ۔۔ ’’مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے ، انھوں نے اپنے مطالعہ اور قلم دونوں کو انقلاب آفرین نغمات کا اسیر بنالیا ہے۔ تحقیق، تنقید، شاعری ، ترجمہ نگاری اور تاریخ نویسی ، کئی میدانوں میں اپنا اشہبِ قلم سر پٹ دوڑارہے ہیں اور مذہب ، ادب اور فن سب کو مالامال کررہے ہیں ۔ کلاسیکی شاعری بھی ان کے عمیق مطالعے کی گرفت میں ہے اور تنقید کے ہیئتی و لسانی مبادیات سے بھی آشنائی ہے۔ اس وقت موصوف رحمانی پبلی کیشنز کی شخصیات سیریز لکھنے میں مشغول ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ اور زیرِ نظر تین کتابیں ۔ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ،ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ، اور شیر میسور ٹیپو سلطان ۔‘‘ اس کا ثبوت ہیں ۔
مُشاہدؔ رضوی پر زود نویسی کا الزام ضرور تھوپا جاسکتا ہے لیکن ان کی کتابیں پڑھ کر قطعاً یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انتہائی جلد بازی میں انھوں نے غیر تحقیقی باتوں ، غیر معیاری جملوں یا بے ضرورت مباحث سے اپنی کسی تحریر کو بوجھل ہونے دیاہو۔ وہ اپنی ہر تحریر میںادب اور فن کو موضوع کے شانہ بہ شانہ لے کر چلتے ہیں اور موضوع کی مناسبت سے اسلوب ، محققانہ اور ادبیت کی چاشنی سے بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اپنے قاری پر کوئی بات زبردستی تھوپتے نہیں بلکہ معروضی انداز میں حقائق کا انکشاف کرتے جاتے ہیں اور ان سے پند ونصیحت کا پہلو نکلتا رہتا ہے۔ وہ’’ ۔ادب براے ادب ‘‘ کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے بل کہ’’ ادب براے زندگی ‘‘ کی ترنگ ان کی ہر تحریر سے نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ کتابیں ہر عمر کے لوگ پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں بچوں کے ذہن وفکر کابھی خاص خیال برتا گیا ہے۔ آسان جملوں میں ساری باتیں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے بھی مولانا اسماعیل میرٹھی کی ادبِ اطفال پر تحریر کی گئی کتابیں پڑھی ہوں گی مُشاہدؔ رضوی کی یہ کتابیں پڑھ کروہ ضرور اس بات کی توثیق کرسکتے ہیں ۔
سیرت و سوانح کے باب میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کی حیات اور ان کی خدماتِ جلیلہ کو جلی حرفوں میں جگہ دی گئی ہے اور ان کے کردار و اخلاق کے روشن پہلووں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی سیرت اور کردار پر علیٰ الترتیب ۳۲؍اور ۶۴؍ صفحات پر مشتمل مُشاہدؔ رضوی کی یہ دونوں کتابیں اس اعتبار سے ضرور اہم ہیں کہ ان کی تالیف میں جہاں حقائق کی پیش کش کا لحاظ رکھا گیا ہے وہیں بچوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ اس لیے ان دونوں کتابوں کو اگر ازواجِ مطہرات کی حیات و خدمات پر کوئی گران قدر اضافہ قرار نہ دیا جائے تب بھی آسان اردو زبان میں ہر شخصیت پر الگ الگ کوئی کتاب راقم کی نظر سے نہیں گزری اس لیے اس کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جن میں نام و نسب ، خاندان، ولادت ، بچپن ، تعلیم و تربیت، نکاح ، ہجرت ، مقام و مرتبہ ، روایتِ حدیث، گھریلوی زندگی ، خصوصیات، علوم و فنون میں مہارت ، ایثار و قربانی ، حق گوئی ، زہد پسندی، سخاوت و مروت ، دینی و ملی خدمات اور وفاتِ حسرت آیات کو مختصراً بیان کی گیا ہے ۔ مُشاہدؔ رضوی نے ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ان(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ۔ علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے۔‘‘ (پیش لفظ ص۴) ۔ اس طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے متعلق نام و نسب، نکاح سابق، شرافت و نجابت، تجارت ، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ازدواجی زندگی، اسلام، مالی قربانی ، اولاد ، فضائل ومناقب اور وصال پر انتہائی جامعیت کے ساتھ لکھا ہے ۔ البتہ پیشِ لفظ میں انھوں نے لکھا ہے کہ:’’ حضرت خدیجۃ الکبرایٰ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچیس سال تک رہیں ، پندرہ سال اعلانِ نبوت سے پہلے اور دس سال اعلانِ نبوت کے بعد۔‘‘ص(۴)اور ص ۱۲؍ لکھتے ہیں کہ : ’’ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چوبیس سال رہیں جب آپ کی وفات ہوئی تو عمر شریف اکسٹھ سال سال اور دوسری روایت میں پینسٹھ سال تھی۔‘‘
ایک خالی الذہن قاری کو یہاں دھوکا ہوسکتا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رفاقت کی مدت کتنی تھی جب کہ اس کتاب میں رفاقت کی مدت کہیں پچیس سال اور کہیں چوبیس سال درج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود سیرت نگاروں کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ پچیس سال کے قائل ہیں اور بعض نے چوبیس سال لکھا ہے(دیکھیے مدارج النبوۃ : ج ۲، ص ۷۹۸) مذکورہ کتاب میں کہیں یہ وضاحت ہونی ضروری تھی تاکہ قاری کسی الجھن کا شکار نہ ہو۔
تاریخی شخصیات سیریز کی ایک کڑی ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی تیسری کتاب’’ ۔شیر میسور ٹیپو سلطان ‘‘ بھی ہے۔ ٹیپو سلطان اور ان کے والد سلطان حیدر علی کانام ہندوستان کی تاریخ میں ’’نقشِ کالحجر‘‘ کی مانند ہے۔ تاریخ آزادیِ ہند ان دونوں کے تذکرے کے بغیر قطعی نامکمل مانی جاتی ہے۔ مؤلف ِ کتاب نے سلطان ٹیپو کی حیات و خدمات کو پورے مالہ و ما علیہ کے ساتھ مربوط انداز میں بیان کیا ہے۔ سلطان ٹیپو کا ایک جملہ آج بھی گونج بناہوا ہے۔’’گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔‘‘ سلطان نے خون کا آخری قطرہ بھی ہندوستان کے لیے وقف کردیا تھا۔ وہ بڑازیرک اور جواں سال مردِداناتھا جس کی بہادری اور بلند ہمتی ضرب المثل بن چکی ہے اس لیے یہ کہنا کہ ’’بے چارے سلطان ٹیپو کی یہ مجبوری تھی کہ وہ زندگی بھر غداروں اور نمک حراموں کی سازشوں سے بے خبر رہے۔‘‘(ص ۵۱)بھلا نہیں معلوم ہوتا ۔ شہادت اور بظاہر شکست کے بعد بھی ’’ٹیپو سلطان ، ایک زندۂ جاوید کردار بن کر ابھرا ہے‘‘۔ اور ’’میرصادق‘‘ نمک حرامی اور دغا بازی کا استعارہ بن چکا ہے۔ جو کچھ بھی ہے ، مُشاہدؔ رضوی کی یہ کتاب اپنے موضوع پر اردو زبان میں ایک بھر پور کتاب ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
ڈاکٹرمُشاہدؔ رضوی نے اس سے قبل ’’پھنس گیا کنجوس‘‘ کے نام سے ہندوی اور مراٹھی ادب سے ترجمہ شدہ کہانیوں کا ایک مجموعہ پیش کیا تھا’’جگا ڈاکو اور جادوئی غار‘‘ نامی کتاب بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں بچوں کے لیے دل چسپ ہندی اور مراٹھی ادب سے ۲۷؍ کہانیوں کا اردو ترجمہ بڑی عمدگی اور مہارت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ زبان عام فہم اور سلیس ہے۔ جملوں میں الجھاو بالکل نہیں ہے۔ پلاٹ ،کردار، مکالمہ بڑا دل نشیں اورع اسلوب بیانیہ ہے۔ یہ کتاب ادب ِ اطفال میں ایک اضافہ قرار دی جائیگی۔ امید ہے کہ یہ کتاب بھی کافی پڑھی جائے گی۔ البتہ چند جملے نظر ثانی کے محتاج ہیں، مثلاً :’’ یکایک ان کے کانوں میں دھیمی سے آواز آئی۔‘‘(ص ۷) ، جگا کو زندہ یا مردہ گرفتاری پر راجا نے ڈھیر سارے انعامات کا اعلان کیا تھا۔‘‘(ص ۱۹)، ’’ایک بچھو میں پانی بہتا ہوا دکھائی دیا۔‘‘(ص ۴۴) ، ساتھ تازہ خون کے دھبے بھی دکھائی سے ایسا لگتا تھا کہ۔۔‘‘(ص۶۷)
ان جملوں میں غور کرنے سے ہی ان میں در آئی غلطی کااحساس ہوجاتاہے بہت ممکن ہے یہ پروف کی خامی ہو۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں ان پر توجہ دی جائے گی۔ ویسے اس مجموعے کی سب سے عمدہ کہانی ’’رنکو کی ضد‘‘ قرار دی جائے گی جس میں ایک ضدی بچّے کو اخیر میں اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ میری بے جا ہٹ اور ضد کی بدولت پورے گھر والوں کو سزا جھیلنی پڑ رہی ہے۔ یہ چاروں کتابیں رحمانی پبلی کیشنزمالیگاؤں سے چھپی ہیں۔
ڈاکٹر مُشاہد رضوی کی زیرِ تبصرہ پانچویں کتاب حضرت مولانا محمد صدیق ہزاروی کی تفصیلی تحریر کی تلخیص و ترتیب جدیدہے۔ یہ کتابچہ محض سولہ صفحات کو محیط ہے اور میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علماے عرب کے خیالات و معمولات پر بھرپور روشنی ڈالتا ہے ۔ جسے ادارہٗ دوستی مالیگاؤں نے شائع کیاہے۔ ان پانچوں کتابوں کی تالیف پر ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی دلی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اخیر میں باذوق قارئین سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ضرور ان کتابوں کو اپنے مطالعے کی میز پر سجائیں اور دوستوںاور بچوں کو تحفہ دیں اور مُشاہدؔ رضوی کے لیے یہ بھی کہ ؎ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ