سید زبیر
محفلین
رفیقان چمن سے خطاب
اے علیگڑھ گنبدِنور و ضیاءعلم و فن
مارکہء سید احمد،نازشِ گنگ و چمن
تجھ سے روشن ہے ستاروں کی زمیں پہ انجمن
گونجتا ہے ترا ہر طرف نغمہ "میرا چمن"
پھر بھی نہ جانے مرا دل آج کیوں بے زار ہے
کچھ تو حالت زار ہے ' کوئی کہیں بیمار ہے
کیوں ترے گلشن میں اب وہ شورش بلبل نہیں
وہ نوائے دل نہیں وہ گیسوئے سنبل نہیں
درس ہیں تدریس بھی پر خاص کچھ حاصل نہیں
ہیں بہت شمشیر زن ، کوئی مگر بسمل نہیں
جذبۂ ایثار و قربانی کہاں گم ہوگئے
غازیِ کردار کے معنی کہاں گم ہوگئے
ہم نے قصے تو سنے ہیں ایسے تیری چاہ کے
لوگ پلکوں سے چنا کرتے تھے کانٹے راہ کے
نذرِسید کردیا سب مال اپنی جاہ کے
یوں دیا جیسے کہ ہوںصدقے عبادت گاہ کے
پھر ہوا ہر طاق روشن نورِشمع ِحرم سے
واہ کیا جلوے تھے کیا نقشے تھے تیری بزم کے
اب تیری بزم طرب کا حال کچھ بے حال ہے
گل بھی ہے ،بلبل بھی ہیں ، پر گلستاں پا مال ہے
ہیں کرم فرما ابھی بھی ، رنگ گل کچھ لال ہے
پر کہیں پر مکڑیوں کا جیسے کوئی جال ہے
دامنِ گلشن میں گویا چند سازش ساز ہیں
خاک یہ بھی کہر ہی ہے بعض آتش باز ہیں
باغباں کو آج گلشن راس کیوں آتا نہیں
جامعہ کو آج کوئی شیخ کیوں بھاتا نہیں
اندرونی مرض باہر سے نظر آتا نہیں
اورشفاعت کے لیے عیسیٰ کوئی آتا نہیں
ہے قیادت میں کمی یا مقتدمی عیار ہیں
ہیں سراپا مرض یا وہ صورت بیمار ہیں
ڈاکٹر نوشا اسرار ' ہیوسٹن ،امریکہ