ڈاکٹر کی ریڑھی

گلزیب انجم

محفلین
ڈاکٹر کی ریڑھی

یاداں

تحریر : گل زیب انجم
سیری چوک سے چار سڑکوں کا نکلنا اس بات کو واضح کرنا ہی ہے کہ ابھی تک SERI کے چار پاو (.Society of 2.equally 3.relation 4.inn) قائم و دائم ہیں۔ اس چوک سے مشرق کی طرف جانے والی سڑک چوکی روڈ اور شمال کی طرف جانے والی منجواڑ روڈ کہلاتی ہے۔ جنوب کو چتر بارڈر اور مغربی سمت جانے والی سڑک سیری بازار کی مین روڈ ہے ۔ شاید ان سڑکوں سے کسی مغل شہزادے یا شہزادی کا گزر نہیں ہوا اس لیے یہ سڑکیں کسی شخصی نام سے منسوب نہیں ہیں ۔ اگر ٹیکسالی گیٹ کی اندر والی منڈی ہیرا سنگھ کی آمدورفت سے ہیرا منڈی بن سکتی ہے مین تجارتی بازار شاہ عالم کی وجہ سے شاہ عالمی گیٹ مورچیوں کی پہرا داری سے موچی دروازہ(مورچی کی وجہ تسمیہ مغلوں کے زمانے میں یہاں فوج ہوا کرتی تھی یعنی وہ مورچہ بند رہتی تھی ان کے جانے کے بعد مورچی کی "ر" کو کاٹ کر موچی بنا دیا اور یہی آج تک مشہور ہے) بن سکتا ہے تو یہ سڑکیں جن کو مقامی بولی میں اب بھی شڑکیں کہا جاتا ہے یہ بھی کچھ ناموں سے جیسے چوکی والی روڈ پہلوان لطیف سے خانپور والی فیض پہلوان یا ذیلدار راجہ محمد خان سے چتر والی ڈاکٹر شریف اور منجواڑ والی چودھری صدا حسین یا ماسٹر اکبر جی سے منسوب ہو سکتی تھیں لیکن سادہ مزاجی نے ایسا کرنے سے روکے رکھا اور یہ سڑکیں ابھی تک چتر چوکی منجواڑ والی شڑکیں ہی ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ سڑکیں اولیا اللہ کے نام سے بھی وابستہ ہو سکتیں تھیں کیونکہ ہر سڑک کے اختتام پر یا وسط میں کسی ولی اللہ کا مزار ضرور ہے ۔ لیکن وادی کے پڑھے لکھے لوگوں کا شاید اس طرف سوچوں کا مبذول کرنا اچھا نہیں لگا یا پھر سیاسی الجھنوں میں یوں الجھے ہیں کہ کچھ اور سوجھتا ہی نہیں ۔

سیری چوک بوائز ہائی سکول والی گلی میں جہاں آج کل ظہیر آٹوز ہے یہاں کبھی ایک ریڑھی لگا کرتی تھی جس پر ایک دیگچہ چاولوں کا اور ایک چنے کا ہوتا تھا ۔ کبھی کبھی چاولوں والا بھائی باریک باریک سی پیاز بھی کاٹ لاتا تھا لیکن یہ پیاز یا چٹنی صرف دکانداروں یا ماسٹرز صاحبان کو ملا کرتی تھی ہر کسی کو نہیں بلکہ چھوٹے لڑکوں کو یہ کہہ کر ڈرا بھی دیا جاتا تھا کہ پیاز اچھی نہیں ہوتی یا پیاز کا پہلا نقص منہ سے بدبو کا آنا کہہ کر دینے سے منع کر دیتا اور کہتا تم بچے ہو نہ کھاو ۔

چاولوں والا بھائی تقریباً پانچ فٹ تین چار انچ کا تھا اور توند نکلی ہوئی تھی ۔ سر کچھ قدرے بھاری تھا اور اس پر موٹے اور گھنے بال جو ہمیشہ کنگھی کی نعمت سے محروم رہتے تھے۔ دھڑ کی نسبت ٹانگیں چھوٹی تھیں اور چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی دبلی تھیں یہی حال بازوں کا تھا اور ہاتھ چھوٹے چھوٹے تھے۔ بہرحال چہرہ زردی مائل اور قدرے بڑا تھا جس پر موصوف نے گوجری مارکہ مونچھیں رکھی ہوئی تھی ۔ تھوڑا پھرتی سے چلنے پر سانسیں بے ترتیب ہو جاتی تھی جن کو ہموار کرنے کے لیے موصوف کا خود ساختہ فارمولہ یہ تھا کہ کینستر کے اوپر بیٹھ کر ایمبیسی فلٹر کا سگریٹ لگانا ہوتا تھا۔ سگریٹ کے لمبے کش لے کر دو تین بار کھانسنا پھر کندھے پر رکھے پرنے سے منہ صاف کر کے مونچھوں کو درست کرنا ۔ پھر اٹھ کر پلاسٹک والی چھوٹی چھوٹی مختلف کلر والی پلیٹیں دھونی شروع کر دینا ۔ سکولیے لڑکے تفریحی کے وقت ریڑھی کے آس پاس یوں اکٹھے ہو جاتے کے ہر طرف سے پہلے مجھے پہلے مجھے دو کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی۔ کچھ بدتمیزی بھی کر جاتے لیکن کیا مجال چاولوں والا بھائی کچھ کہہ جائے۔ انتہائی صابر شخص تھا کچھ لوگ پیسے کل دوں گا کا کہہ کر ہفتوں منہ نہیں دکھاتے تھے پھر بھی کبھی شکوہ نہیں کیا ۔ بہت اچھے اور بھلے مانس لوگوں میں چاولوں والے کا شمار ہوتا تھا۔ کیا زمانہ تھا ایک دو روپے میں چاول چھولے کی پلیٹ مل جایا کرتی تھی اور ساتھ پانی مفت کا ۔ ہم بس چاولوں والا بھائی کہا کرتے تھے۔ لیکن اس دن ہمیں سخت حیرانگی ہوئی جس دن ماسٹر جی نے ایک روپیہ دیتے ہوئے کہا کہ جاو ڈاکٹر کو میرا بتا کر ایک پلیٹ چاولوں کی لے آو۔ ہم نے روپیہ تو پکڑ لیا لیکن بازار تک یہی سوچتے رہے کے کس ڈاکٹر سے چاول ملیں گے ۔ شاید ماسٹر جی دوائی کا کہتے کہتے چاول کہہ گے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ماسٹر جی کے خوف سے دوبارہ پوچھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی ۔ ویسے بھی ہمارا شمار ان متعلمین میں سے تھا جن پر خوف کچھ زیادہ ہی حاوی تھا اس لیے دوبارہ پوچھنے کے بجائے خود ہی عقل کے گھوڑے دوڑاتے رہے۔ جب کافی دیر تک ہم واپس نہ گئے تب ماسٹر جی کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو انہوں نے پیون (peon) کو ہماری تلاش میں بھیجا جو جلد ہی ہم تک پہنچ گیا اور دیکھتے ہی پوچھنے لگا تمہیں ماسٹر جی نے کہاں بھیجا تھا میں نے کہا ڈاکٹر کے پاس کہنے لگا کس لیے، کہا چاولوں کے لیے ۔ تو پھر چاول کدھر ہیں ؟ ہم نے کہا بھائی سب کے پاس گیا ہوں کسی سے چاول نہیں ملے۔ ہمارا جواب پا کر اس نے کچھ اس انداز سے گردن ہلائی جیسے ہماری عقل پر ماتم کر رہا ہو۔ غصے سے پوچھا روپیہ کدھر ہے ہم نے فوراً ہاتھ کھول کر دکھا دیا یہ ہے ۔ اس نے کہا ادھر آو تمہیں دکھاتا ہوں( لفظ دکھاتا اس وقت دھمکی کے زمرے میں بھی لیا جاتا تھا ) کس ڈاکٹر سے چاول ملتے ہیں ۔ ہم دل میں تم کیا دکھاو گے کہتے ہوئے ساتھ چل دیے۔ وہ سیدھا چاولوں والے بھائی کے پاس گیا اور اسے کہنے لگا ایک اچھی سی پلیٹ چاول کی بنا دو ماسٹر جی کے لیے ۔ اور ساتھ ہی مجھے کہنے لگا تکیا ای ڈاکٹر، میں نے کہا یہ ڈاکٹر ہے کہنے لگا ہاں اسکی ڈاکٹر آخنے ہس۔

اس وقت سے لے کر آج سے دو ہفتے پہلے تک ہم چاولوں والے بھائی کو ڈاکٹر ہی کہتے اور سمجھتے رہے ۔ لیکن اصل نام کا پتہ اس وقت چلا جب ایک یاسر نامی برخوردار کی فرینڈ ریکوسٹ ملی ہم نے حسب عادت پروفائل دیکھی تو فرینڈ کا ہوم ایڈریس سیری کا پایا ۔ تو انبکس میں پوچھ لیا کہ سیری کہاں سے ہو اور ابو کا نام کیا ہے، کہنے لگا میرے ابو کا نام محمود ہے شاید آپ انہیں جانتے ہوں لوگ انہیں ڈاکٹر بھی کہا کرتے تھے ! نام سن کر سوچنے کے انداز میں آنکھوں کو نیم وا کر کے سر ابھی کرسی کی ہیڈ ریسٹ سے لگایا ہی تھا کہ میموری آپلوڈ ہو گئی اور فوراً معذرت کے ساتھ پوچھ لیا وہ ڈاکٹر صاحب چاولوں کی ریڑھی تو نہیں لگایا کرتے تھے۔ کہنے لگا جی جی وہی تھے ہم نے لفظ تھے پر استفسار کیا تو کہنے لگا بارہ سال ہو گئے ہیں انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے ۔ یہ سن کر بے شک دکھ ہوا لیکن مرحوم کی وہ بلیک اینڈ وائٹ فلم آنکھوں کے سامنے گھوم گئی جو ہم نے اپنی آنکھوں دیکھی تھی ۔
 
Top