ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ڈرتا ہوں کسی دن نظروں کا دھوکا نہ کہیں ہو جاؤ تم
تعبیر سمجھتا ہوں تم کو ، سپنا نہ کہیں ہو جاؤ تم
ہر روز بدلتے ہو منزل ، ہر سمت میں چلتے ہو کچھ دیر
خواہش کے سفر میں رستے کا حصہ نہ کہیں ہو جاؤ تم
افسانے کچھ اپنے عنواں کے برعکس بھی نکلا کرتے ہیں
چہروں کی کتابیں پڑھتے ہو، ضایع نہ کہیں ہو جاؤ تم
جو آگ چھپائے پھرتے ہو ، رکھ دے نہ سبھی کچھ پگھلا کر
پتھر ہو بظاہر اندر سے ، لاوا نہ کہیں ہو جاؤ تم
چھپ کر ہی سہی رویا تو کرو ، یہ ضبط بھی اتنا ٹھیک نہیں
بے آب نہ رکھو دشتِ انا ، صحرا نہ کہیں ہو جاؤ تم
یہ قربتیں اتنی ٹھیک نہیں ، ہر گام نہ میرے ساتھ رہو
پرتَو نہ سمجھ بیٹھوں اپنا ، سایا نہ کہیں ہو جاو تم
دل میں جو خلش ہے ماضی کی ، لفظوں میں اسے مت دہراؤ
ایسا نہ ہو اے جانانِ غزل ، افسانہ کہیں ہو جاؤ تم
خاموشی علامت ، لفظ اشارہ ، بات معمہ ہے میری
اک راز بنا ہوں اس لئے میں ، افشا نہ کہیں ہو جاؤ تم
آتی ہے نظر جو کاغذ پر ، ہے مختلف اس سے دنیا ظہیر
ڈرتا ہوں کتابیں پڑھ پڑھ کر تنہا نہ کہیں ہو جاؤ تم
ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹
فاتح محمد تابش صدیقی سید عاطف علی کاشف اخترتعبیر سمجھتا ہوں تم کو ، سپنا نہ کہیں ہو جاؤ تم
ہر روز بدلتے ہو منزل ، ہر سمت میں چلتے ہو کچھ دیر
خواہش کے سفر میں رستے کا حصہ نہ کہیں ہو جاؤ تم
افسانے کچھ اپنے عنواں کے برعکس بھی نکلا کرتے ہیں
چہروں کی کتابیں پڑھتے ہو، ضایع نہ کہیں ہو جاؤ تم
جو آگ چھپائے پھرتے ہو ، رکھ دے نہ سبھی کچھ پگھلا کر
پتھر ہو بظاہر اندر سے ، لاوا نہ کہیں ہو جاؤ تم
چھپ کر ہی سہی رویا تو کرو ، یہ ضبط بھی اتنا ٹھیک نہیں
بے آب نہ رکھو دشتِ انا ، صحرا نہ کہیں ہو جاؤ تم
یہ قربتیں اتنی ٹھیک نہیں ، ہر گام نہ میرے ساتھ رہو
پرتَو نہ سمجھ بیٹھوں اپنا ، سایا نہ کہیں ہو جاو تم
دل میں جو خلش ہے ماضی کی ، لفظوں میں اسے مت دہراؤ
ایسا نہ ہو اے جانانِ غزل ، افسانہ کہیں ہو جاؤ تم
خاموشی علامت ، لفظ اشارہ ، بات معمہ ہے میری
اک راز بنا ہوں اس لئے میں ، افشا نہ کہیں ہو جاؤ تم
آتی ہے نظر جو کاغذ پر ، ہے مختلف اس سے دنیا ظہیر
ڈرتا ہوں کتابیں پڑھ پڑھ کر تنہا نہ کہیں ہو جاؤ تم
ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹
آخری تدوین: