ڈر رہتا ہے اس کی اب ناراضی کا
عشق یقیناً کھیل ہے جان کی بازی کا
ہلکی سی بھی سلوٹ ماتھے پر کیوں آئے
یہ فتویٰ ہے وادیِ عشق میں قاضی کا
قید میں ہو کر بھی لُوٹے ہیں مزے بہت
لیکن اب کچھ شوق نہیں آزادی کا
ہم ہی تو اپنا کرتے ہیں نقصان یہاں
اس پر سوگ مناتے ہیں بربادی کا
آہستہ آہستہ بھول ہی جاتا ہے
ہر تاریک جو پہلو ہو گا ماضی کا
چلتے رہنے سے منزل آ جاتی ہے
ہاتھ پکڑنا پڑتا ہے بس ہادی کا
غم ہی کسی کا ہے مقصود زمانے میں
فکر کریں دنیا والے ہی شادی کا
کچھ بھی نہیں ہے علم ہمارا اس آگے
ہم کو ملی خیرات اور اس کا ذاتی کا