ڈر رہتا ہے اس کی اب ناراضی کا

عظیم

محفلین

ڈر رہتا ہے اس کی اب ناراضی کا
عشق یقیناً کھیل ہے جان کی بازی کا

ہلکی سی بھی سلوٹ ماتھے پر کیوں آئے
یہ فتویٰ ہے وادیِ عشق میں قاضی کا

قید میں ہو کر بھی لُوٹے ہیں مزے بہت
لیکن اب کچھ شوق نہیں آزادی کا

ہم ہی تو اپنا کرتے ہیں نقصان یہاں
اس پر سوگ مناتے ہیں بربادی کا

آہستہ آہستہ بھول ہی جاتا ہے
ہر تاریک جو پہلو ہو گا ماضی کا

چلتے رہنے سے منزل آ جاتی ہے
ہاتھ پکڑنا پڑتا ہے بس ہادی کا

غم ہی کسی کا ہے مقصود زمانے میں
فکر کریں دنیا والے ہی شادی کا

کچھ بھی نہیں ہے علم ہمارا اس آگے
ہم کو ملی خیرات اور اس کا ذاتی کا




 

الف عین

لائبریرین
قوافی درست نہیں لگ رہے، مطلع میں صوتی قافیہ کا احتمال ہوتا ہے، لیکن آگے صرف دی اور زی کے قوافی ہیں۔ بربادی،. ادی، ہادی اور آزادی قوافی کی مکمل غزل کر لو، اور زی، ضی کے صوتی قوافی کے ساتھ ایک اور غزل کہہ لو
آخری شعر سمجھ میں نہیں آیا، "اس آگے" محاورے کے خلاف ہے
 
Top