ناعمہ عزیز
لائبریرین
مجھے یاد ہے کہ جب میں نے لکھنا شروع کیا تو میں ہر سال کے شروع میں دعاؤں بھری ایک تحریر لکھا کرتی تھی ، نیا سال شروع ہونے پر خوشی کیوں ہوتی تھی یہ سمجھ نہیں آ سکا ، مگر پہلادکھ اس لئے ہوتا تھا کہ میری زندگی کا ایک اور سال میرے ہاتھ سے نکل گیا اور دن کم رہ گئے ! اور دوسرا دکھ گزرے سال میں گزر جانے والے ایک کے بعد ایک دکھ پر ہوتا تھا! یادوں کا ایک سوٹ کیس بند کر کے دل کی الماری میں تالا لگا دیتی اور پھر آنے والے سال میں فراغت پاتے سے جلدی سے کھول کر دیکھ لیتی اور بند کر دیتی ۔ شاید شعوری اور لاشعوری طور پر سارے ایساہی کرتے ہوں !
نیا سال پھر سے آنے والا ہے اور اس بار نئے سال کی آمد پچھلے دو سالوں کے کی آمد کی طرح اپنے اندر بہت سارا ڈر سموئے ہوئے ہیں مگر نہیں یہ ڈر میرے اندر کہیں موجود ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑا ، طاقتور اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔"کھو دینے کا ڈر" شاید اس سے بڑا ڈر بھی کوئی دنیا میں موجود ہو مگر میرا اندر کا ڈر مجھے بہت بڑا لگتا ہے ۔
ایسا ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے ساتھ ہونے والا ہر دکھ ، درد ، غم ، کرب ، ڈر یا تکلیف بڑی ہی لگتی ہے ، اور خوشی کے لمحے جتنے بھی لمبے اور خوشگوار ہوں ان کا احساس تک نہیں رہتا ہے ، شاید اس لئے کہ خوشی میں ہم خوشی کے اندر خوشی سے مصروف ہوتے ہیں اور دکھ میں دکھ ہمیں اپنے اندر بڑے دکھ سے مصروف رکھتا ہے ۔ خوشی کے اوقات طویل بھی ہوں تو اس لئے یاد نہیں رہتے کہ انہیں ہم بخوشی بسر کرتے ہیں اور غم میں شاید غم کا وقت اس لئے یاد رہ جاتا ہے کہ اس میں ہماری مرضی و منشا کا عمل دخل شامل نہیں ہوتا۔
ہم سب کے اندر ڈر نام کا ایک آسیب اپنا حق سمجھ کر براجمان ہوتا ہے اور اسے اپنے اندر جگہ دینا والے بھی یا تو ہم خود ہوتے ہیں یا بچپن میں ہمارے اردگرد کے لوگ یا پھر وہ واقعات کہ کہ رونما ہونے کے بعد ساری زندگی کے ہمارے اندر تازہ رہتے ہیں ، آنکھیں کھلی ہوں یا بند ، حواس قائم ہوں یا نہیں وہ واقعات سانس کی آمدورفت کے ساتھ ساتھ ہماری ذات کا حصہ بنے رہتے ہیں ہم چاہ کر بھی انہیں بھلا نہیں سکتے ۔
آنے والا سال مجھے ایک بہت اونچے لمبے تڑنگے پہاڑ جیسا دکھائی دیتا ہے جس کے چوٹی کھڑے پر کھڑے ہو کر جب نیچے دیکھا جائے تو ڈر کے مارے پورے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ہے ، آنکھیں خوف سے پھٹنے لگتی ہیں فشا ر خون تیز ہو جاتا ہے ۔ اور جب پتا ہو کہ اب اس پہاڑ سے نیچے اترنا ہے تو یہی ڈر ستاتا رہتا ہے کہ ساتھ چلنے والوں کا پاؤں نا پھسل جائے اردگرد کھائیاں بہت گہری ہیں ۔۔
سانحہ پشاور پر بڑی تکلیف ہوئی ، کوئی کسی ماں کا لعل اس سے ایسے جدا نا کرے کہ جیسے ان درندوں نے کیا گزرتے سال کا ڈر ختم ہونے کو تھا کہ کیونکہ سال ختم ہونے میں چند دن باقی تھے کہ جب یہ خبر سنی یوں لگا کسی نے دل کو نوچ کر باہر نکالا ہو اور یوں پھینک دیا ہو جیسے کچھ تھا ہی نہیں ، ڈر پھر سے تازہ ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دُکھ نے اندر ڈیرا جما لیا ۔ ساری قوم کا یہ حال ہے تو لواحقین کے لیے یہ واقع کس قدر اذیت ناک ہو گا اپنی آخری سانس انہیں یہ تکلیف برداشت کرناہوگی اور اپنے بچوں کے لئے ان کے اندر یہ ڈر ہمیشہ رہے گا کہ سکول جا تو رہے ہیں اگر واپس نا آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ !!!
اللہ رب العزت ہمیں کبھی وہ گھڑی نا دکھائے کہ ہم اپنے قوم کے سپوتوں کو اس حال میں پھر کبھی دیکھیں اللہ رب العزت جانے والوں کے درجات بلند کرے آمین۔
نیا سال پھر سے آنے والا ہے اور اس بار نئے سال کی آمد پچھلے دو سالوں کے کی آمد کی طرح اپنے اندر بہت سارا ڈر سموئے ہوئے ہیں مگر نہیں یہ ڈر میرے اندر کہیں موجود ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑا ، طاقتور اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا ہے۔"کھو دینے کا ڈر" شاید اس سے بڑا ڈر بھی کوئی دنیا میں موجود ہو مگر میرا اندر کا ڈر مجھے بہت بڑا لگتا ہے ۔
ایسا ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اپنے ساتھ ہونے والا ہر دکھ ، درد ، غم ، کرب ، ڈر یا تکلیف بڑی ہی لگتی ہے ، اور خوشی کے لمحے جتنے بھی لمبے اور خوشگوار ہوں ان کا احساس تک نہیں رہتا ہے ، شاید اس لئے کہ خوشی میں ہم خوشی کے اندر خوشی سے مصروف ہوتے ہیں اور دکھ میں دکھ ہمیں اپنے اندر بڑے دکھ سے مصروف رکھتا ہے ۔ خوشی کے اوقات طویل بھی ہوں تو اس لئے یاد نہیں رہتے کہ انہیں ہم بخوشی بسر کرتے ہیں اور غم میں شاید غم کا وقت اس لئے یاد رہ جاتا ہے کہ اس میں ہماری مرضی و منشا کا عمل دخل شامل نہیں ہوتا۔
ہم سب کے اندر ڈر نام کا ایک آسیب اپنا حق سمجھ کر براجمان ہوتا ہے اور اسے اپنے اندر جگہ دینا والے بھی یا تو ہم خود ہوتے ہیں یا بچپن میں ہمارے اردگرد کے لوگ یا پھر وہ واقعات کہ کہ رونما ہونے کے بعد ساری زندگی کے ہمارے اندر تازہ رہتے ہیں ، آنکھیں کھلی ہوں یا بند ، حواس قائم ہوں یا نہیں وہ واقعات سانس کی آمدورفت کے ساتھ ساتھ ہماری ذات کا حصہ بنے رہتے ہیں ہم چاہ کر بھی انہیں بھلا نہیں سکتے ۔
آنے والا سال مجھے ایک بہت اونچے لمبے تڑنگے پہاڑ جیسا دکھائی دیتا ہے جس کے چوٹی کھڑے پر کھڑے ہو کر جب نیچے دیکھا جائے تو ڈر کے مارے پورے جسم میں سنسنی دوڑ جاتی ہے ، آنکھیں خوف سے پھٹنے لگتی ہیں فشا ر خون تیز ہو جاتا ہے ۔ اور جب پتا ہو کہ اب اس پہاڑ سے نیچے اترنا ہے تو یہی ڈر ستاتا رہتا ہے کہ ساتھ چلنے والوں کا پاؤں نا پھسل جائے اردگرد کھائیاں بہت گہری ہیں ۔۔
سانحہ پشاور پر بڑی تکلیف ہوئی ، کوئی کسی ماں کا لعل اس سے ایسے جدا نا کرے کہ جیسے ان درندوں نے کیا گزرتے سال کا ڈر ختم ہونے کو تھا کہ کیونکہ سال ختم ہونے میں چند دن باقی تھے کہ جب یہ خبر سنی یوں لگا کسی نے دل کو نوچ کر باہر نکالا ہو اور یوں پھینک دیا ہو جیسے کچھ تھا ہی نہیں ، ڈر پھر سے تازہ ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دُکھ نے اندر ڈیرا جما لیا ۔ ساری قوم کا یہ حال ہے تو لواحقین کے لیے یہ واقع کس قدر اذیت ناک ہو گا اپنی آخری سانس انہیں یہ تکلیف برداشت کرناہوگی اور اپنے بچوں کے لئے ان کے اندر یہ ڈر ہمیشہ رہے گا کہ سکول جا تو رہے ہیں اگر واپس نا آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔ !!!
اللہ رب العزت ہمیں کبھی وہ گھڑی نا دکھائے کہ ہم اپنے قوم کے سپوتوں کو اس حال میں پھر کبھی دیکھیں اللہ رب العزت جانے والوں کے درجات بلند کرے آمین۔