محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ڈنڈا بردار بھارتی اہلکاروں کو پیچھے ہٹانے والی یہ باحجاب لڑکی کون ہے؟
ویب ڈیسک19 دسمبر 2019
Facebook Count
Twitter Share
0
0
Translate
عائشہ رینا جامعہ ملیہ میں ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: ممبئی مرر/ سی این این
بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاس کیے گئے
’متنازع شہریت ترمیمی بل‘ پر اگرچہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم دنیا بھر کے لوگ اب بھی 16 دسمبر کو دارالحکومت نئی دہلی کی معروف جامعہ ملیہ یونیورسٹی (جے ایم یو) کی طالبات کی جانب سے پولیس کے ساتھ ہونے والی کشیدگی کو نہیں بھولے۔
بھارتی پولیس نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی شب بغیر اجازت گھس گئی تھی اور ’متنازع شہریت قانون‘ پر احتجاج کرنے والے طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا۔
متنازع شہریت بل پر احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ کے زیادہ تر طلبہ اگرچہ مسلمان تھے تاہم ان کے ساتھ احتجاج کرنے والے ہندو طلبہ بھی تھے جو متنازع قانون کے خلاف تھے۔
پولیس نے یونیورسٹی میں زبردستی گھس کر طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا اور پولیس تشدد میں کم سے کم 200 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑ بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ کا ردعمل
متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر کی متعدد ریاستوں اور شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں 17 دسمبر تک 6 افراد ہلاک جب کہ 300 کے قریب زخمی ہوچکے تھے جب کہ کئی شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں املاک کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو للکارنے والی طالبات کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی—اسکرین شاٹ
متنازع قانون پر مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ کو پولیس نے چن چن کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک ایسی ہی ویڈیو 16 دسمبر کو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں ڈنڈا بردار پولیس والوں کو ایک طالب علم پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مذکورہ ویڈیو اس وجہ سے وائرل ہوئی تھی کہ اس ویڈیو میں ساتھی طالب علم پر پولیس کا تشدد دیکھ کر ساتھی طالبات تیش میں آجاتی ہیں اور وہ پولیس والوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں واپس جانے پر مجبور کرتی ہیں۔
وائرل ہونے والی ویڈیو میں پولیس والوں کے سامنے ’دیوار‘ بن کر کھڑی ہونے والی پانچوں طالبات حجاب میں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’متنازع شہریت قانون‘ پر بولی وڈ شخصیات بول پڑیں
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے جب مرد طالب علم کو اندر سے کھینچ کر باہر لاکر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو پانچوں طالبات اپنے ساتھی طالب علم کے اوپر بچھ جاتی ہیں اور انہیں پولیس تشدد سے بچاتی ہیں۔
پانچوں بہادر لڑکیاں پولیس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں جس کے بعد پولیس مجبور ہوکر چلی جاتی ہے۔
لڑکیوں کی مزاحمت پر پولیس پیچھے ہٹی—اسکرین شاٹ
اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی طالبات کو 16 دسمبر سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب مذکورہ طالبات دنیا بھر میں ’بھارت کے اندر مزاحمت کی مثال‘ بن گئی ہیں اور خاص طور پر ایک باحجاب لڑکی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں دکھائی دینے والی چار میں سے 3 طالبات کی فوری شناخت ہوگئی، جن کی ہمت کو بہت سراہا جا رہا ہے۔
ویڈیو میں ڈنڈا بردار بھارتی پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالر کر بات کرنے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے والی تین بہادر لڑکیوں میں سے سب سے زیادہ بہادر 22 سالہ عائشہ رینا کو قرار دیا جا رہا ہے جو حجاب میں نظر آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوشانت سنگھ کو متنازع شہریت قانون کی مخالفت پر ٹی وی شو سے نکالا گیا؟
22 سالہ عائشہ رینا کا تعلق بھارتی ریاست کیرالا سے ہے اور وہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’تاریخ‘ کی طالبہ ہیں۔
عائشہ رینا کا تعلق ریاست کیرالا سے ہے اور وہ تاریخ کی طالبہ ہیں—فوٹو: سی این این
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق عائشہ رینا نے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بتایا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک دن میں اتنی مشہور ہو جائیں گی۔
عائشہ رینا کا کہنا تھا کہ بطور مسلمان انہیں بھارتی پولیس اور بھارتی حکومت کے ہتھکنڈوں سے اب ڈر نہیں لگتا، کیوں کہ وہ یہاں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پہلے سے ہی آگاہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد پولیس سے الجھ کر شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھی طالب علم 24 سالہ شاہین عبداللہ کو پولیس تشدد سے بچانا تھا۔
عائشہ رینا کا ساتھ دینے والی دوسری لڑکی لدیبا فرزانہ بھی ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: الجزیرہ
عائشہ رینا کے ساتھ حجاب میں نظر آنے والی دوسری لڑکی 22 سالہ لدیبا فرزانہ تھیں جو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’عربی زبان‘ کی طالبہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں شہرت کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ تو بس اپنے بھائی طالب علم کو بچا رہی تھیں۔
لدیبا فرزانہ بھی یونیورسٹی میں ماسٹر کی طالبہ ہیں اور وہ بھی متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔
ساتھی طالبات نے طالب علم شاہین عبداللہ کو بچایا تھا، طلبہ بھارتی صحافی برکھا دت کے ہمراہ—فوٹو: برکھا دت ٹوئٹر
عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق پولیس تشدد سے ساتھی طالب علم کو بچانے والی 2 مسلمان طالبات عائشہ رینا اور لدیبا فرزانہ کے ساتھ تیسری طالبہ ہندو تھیں اور اس کا تعلق ریاست اتر پردیش سے تھا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس تشدد سے طالب علم کو بچانے والی ہندو طالبہ چندہ یادیو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں گریجوئیشن کی طالبہ ہیں۔
چندہ یادیو نے بھی پولیس تشدد کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ بطور طالبہ انہیں بھی پولیس تشدد سے خوف نہیں آتا اور ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔
ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔
Facebook Count
Twitter Share
0
ویب ڈیسک19 دسمبر 2019
Facebook Count
Twitter Share
0
0
Translate
عائشہ رینا جامعہ ملیہ میں ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: ممبئی مرر/ سی این این
بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاس کیے گئے
’متنازع شہریت ترمیمی بل‘ پر اگرچہ احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، تاہم دنیا بھر کے لوگ اب بھی 16 دسمبر کو دارالحکومت نئی دہلی کی معروف جامعہ ملیہ یونیورسٹی (جے ایم یو) کی طالبات کی جانب سے پولیس کے ساتھ ہونے والی کشیدگی کو نہیں بھولے۔
بھارتی پولیس نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں 15 دسمبر کی شب بغیر اجازت گھس گئی تھی اور ’متنازع شہریت قانون‘ پر احتجاج کرنے والے طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا۔
متنازع شہریت بل پر احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ کے زیادہ تر طلبہ اگرچہ مسلمان تھے تاہم ان کے ساتھ احتجاج کرنے والے ہندو طلبہ بھی تھے جو متنازع قانون کے خلاف تھے۔
پولیس نے یونیورسٹی میں زبردستی گھس کر طلبہ پر بیہمانہ تشدد کیا تھا اور پولیس تشدد میں کم سے کم 200 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑ بھارت رہنے کے قابل نہیں رہا‘ متنازع شہریت قانون پر جامعہ ملیہ کی ہندو طالبہ کا ردعمل
متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر کی متعدد ریاستوں اور شہروں میں ہونے والے مظاہروں اور ہنگاموں میں 17 دسمبر تک 6 افراد ہلاک جب کہ 300 کے قریب زخمی ہوچکے تھے جب کہ کئی شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں املاک کو بھی کافی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ڈنڈا بردار پولیس اہلکاروں کو للکارنے والی طالبات کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی—اسکرین شاٹ
متنازع قانون پر مظاہرہ کرنے والے جامعہ ملیہ کے طلبہ کو پولیس نے چن چن کے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ایک ایسی ہی ویڈیو 16 دسمبر کو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی تھی جس میں ڈنڈا بردار پولیس والوں کو ایک طالب علم پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مذکورہ ویڈیو اس وجہ سے وائرل ہوئی تھی کہ اس ویڈیو میں ساتھی طالب علم پر پولیس کا تشدد دیکھ کر ساتھی طالبات تیش میں آجاتی ہیں اور وہ پولیس والوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور انہیں واپس جانے پر مجبور کرتی ہیں۔
وائرل ہونے والی ویڈیو میں پولیس والوں کے سامنے ’دیوار‘ بن کر کھڑی ہونے والی پانچوں طالبات حجاب میں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ’واپس جاؤ، واپس جاؤ‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’متنازع شہریت قانون‘ پر بولی وڈ شخصیات بول پڑیں
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے جب مرد طالب علم کو اندر سے کھینچ کر باہر لاکر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو پانچوں طالبات اپنے ساتھی طالب علم کے اوپر بچھ جاتی ہیں اور انہیں پولیس تشدد سے بچاتی ہیں۔
پانچوں بہادر لڑکیاں پولیس کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں جس کے بعد پولیس مجبور ہوکر چلی جاتی ہے۔
لڑکیوں کی مزاحمت پر پولیس پیچھے ہٹی—اسکرین شاٹ
اس ویڈیو میں دکھائی دینے والی طالبات کو 16 دسمبر سے قبل کوئی نہیں جانتا تھا لیکن اب مذکورہ طالبات دنیا بھر میں ’بھارت کے اندر مزاحمت کی مثال‘ بن گئی ہیں اور خاص طور پر ایک باحجاب لڑکی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔
مذکورہ ویڈیو میں دکھائی دینے والی چار میں سے 3 طالبات کی فوری شناخت ہوگئی، جن کی ہمت کو بہت سراہا جا رہا ہے۔
ویڈیو میں ڈنڈا بردار بھارتی پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالر کر بات کرنے اور انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے والی تین بہادر لڑکیوں میں سے سب سے زیادہ بہادر 22 سالہ عائشہ رینا کو قرار دیا جا رہا ہے جو حجاب میں نظر آئیں۔
یہ بھی پڑھیں: سوشانت سنگھ کو متنازع شہریت قانون کی مخالفت پر ٹی وی شو سے نکالا گیا؟
22 سالہ عائشہ رینا کا تعلق بھارتی ریاست کیرالا سے ہے اور وہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’تاریخ‘ کی طالبہ ہیں۔
عائشہ رینا کا تعلق ریاست کیرالا سے ہے اور وہ تاریخ کی طالبہ ہیں—فوٹو: سی این این
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق عائشہ رینا نے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بتایا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک دن میں اتنی مشہور ہو جائیں گی۔
عائشہ رینا کا کہنا تھا کہ بطور مسلمان انہیں بھارتی پولیس اور بھارتی حکومت کے ہتھکنڈوں سے اب ڈر نہیں لگتا، کیوں کہ وہ یہاں اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پہلے سے ہی آگاہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد پولیس سے الجھ کر شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ اپنے ساتھی طالب علم 24 سالہ شاہین عبداللہ کو پولیس تشدد سے بچانا تھا۔
عائشہ رینا کا ساتھ دینے والی دوسری لڑکی لدیبا فرزانہ بھی ماسٹر کی طالبہ ہیں—فوٹو: الجزیرہ
عائشہ رینا کے ساتھ حجاب میں نظر آنے والی دوسری لڑکی 22 سالہ لدیبا فرزانہ تھیں جو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں ’عربی زبان‘ کی طالبہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں شہرت کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ تو بس اپنے بھائی طالب علم کو بچا رہی تھیں۔
لدیبا فرزانہ بھی یونیورسٹی میں ماسٹر کی طالبہ ہیں اور وہ بھی متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔
ساتھی طالبات نے طالب علم شاہین عبداللہ کو بچایا تھا، طلبہ بھارتی صحافی برکھا دت کے ہمراہ—فوٹو: برکھا دت ٹوئٹر
عرب نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق پولیس تشدد سے ساتھی طالب علم کو بچانے والی 2 مسلمان طالبات عائشہ رینا اور لدیبا فرزانہ کے ساتھ تیسری طالبہ ہندو تھیں اور اس کا تعلق ریاست اتر پردیش سے تھا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس تشدد سے طالب علم کو بچانے والی ہندو طالبہ چندہ یادیو جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں گریجوئیشن کی طالبہ ہیں۔
چندہ یادیو نے بھی پولیس تشدد کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ بطور طالبہ انہیں بھی پولیس تشدد سے خوف نہیں آتا اور ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔
ان کا مقصد صرف ساتھی طالب علم کا تحفظ تھا۔
Facebook Count
Twitter Share
0
آخری تدوین: