قدرت اللہ شہاب ڈپٹی کمشنر کی ڈائری

سید زبیر

محفلین
قدرت اللہ شہاب کی کتاب 'شہاب نامہ ' سے اقتباس
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
" ایک روز ایک ملاقاتی آیا جس کا نام عبداللہ تھا آتے ہی اس نے زور سے السلام علیکم کہا اور بولا کسی نے بتایا کہ آپ بھی جموں کے رہنے والے ہیں ۔میرا بھی وہاں بسیرا تھا بس یونہی جی چاہا کہ اپنے شہر والے کے درشن کر آوٍٍں اور کوٕئی کام نہیں ۔ میں نے اسے تپاک سے بٹھایا اور کرید کرید کر اس کا حال پوچھتا رہا جسے سن کر میں سر سے پاوں تک لرز گیا ۔جموں میں عبداللہ کوئی دکان تونہیں تھی لیکن وہ اپنے گھر پر ہی رنگریزی کا کام کر کے گذر اوقات کیا کرتا تھا بیوی تین بیٹیوں کو چھوڑ کر فوت ہو گئی تھی ۹ برس کی زہرہ ،۱۲ برس کی عطیہ اور سولہ برس کی رشیدہ۔ اکتوبر ۱۹۴۷ میں مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ذاتی نگرانی میں جموں کے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا پروگرام بنایا تو مسلمان خاندانوں کو پولیس لائن میں جمع کر کے اس بہانے بسوں اور ٹرکوں میں سوار کرادیا جاتا تھا کہ انہیں پاکستان میں سیالکوٹ کے بارڈر تک پہنچا دی جائے گا راستے میں راشٹریہ سیوک سنگ کے ڈوگرہ اور سکھ درندے بسوں کوروک لیتے تھے جوان لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا جوان مردوں کو چن چن کر تہہ تیغ کر دیا جاتا اور بچے کچھے بچوں اور بوڑھوں کو پاکستان روانہ کردیا جاتا جب یہ ءبریں جموں شہر میں پھیلنا شروع ہوئیں تو عبدا للہ پریشان ہو کر پاگل سا ہو گیا اس کی زہرہ ، عطیہ اور رشیدہ پر بھی جوانی کے تازہ تازہ پھول کھل رھے تھے۔ عبداللہ کو یقین تھا کہ اگر وہ ان کو ساتھ لےکرکسی قافلے میں روانہ ہوا تو راستے میں اس کی تینوں بیٹیاں درندہ صفت ڈوگرہ جتھوں کے ہتھے چڑھ جائیں گی اپنے جگر گوشوں کو اس افتاد سے بچانے کے لیے عبداللہ نے اپنے دل میں پختہ منصوبہ تیار کر لیا نہا دھو کر مسجد میں کچھ نفل پڑھے قصاب کی دکان سے ایک تھز دھار چھری مانگ لایااور گھر آکر تینوں بیٹیوں کو عصمت کی حفاظت اور سنت ابراہیمی کے فضائل پر بڑا موقر وعظ دیا زہرہ اور عطیہ کم عمر تھیں اور گڑیا گڑیا کھیلنے کی حد سے آگے نہ بڑھی تھیں وہ دونوں اپنے باپ کی باتوں میں آگئیں دلہنوں کی طرح سج دھج کر انہوں نے دودو نفل پڑھے اورپھر ہنسی خوشی دروازے کی دہلیز پر سر ٹکا کر لیٹ گئیں عبداللہ نے آنکھیں بند کئے بغیر اپنی چھری چلائی اور باری باری دونوں کا سر تن سے جدا کر دیا عجب اتفاق تھا کہ اس روز آسمان کے فرشتے بھی اس قربانی کے لیے دو دنبے لانے سے چوک گئے چنانچہدہلیز پر زہرہ اور عطیہ کی گردنیں کٹی پڑی تھیں کچے فرس پر گرم گرم خون کی دھار یں بہہ بہہ کر بیل بوٹے کاڑھ رہی تھیں کمرے کی فضا میں بھی ایک سوندھی سوندھی سی خوشبو رچی ہوئی تھی اور اب عبداللہاپنے ہاتھ میں خون آشام چھری تھامے رشیدہ کو بلا رہا تھا لیکن رشیدہ ا کے قدموں میں گری کپکپا رہی تھی ،تھر تھرا رہی تھی گڑگڑارہی تھی اگر وہ پڑھی لکھی ہوتی تو بڑی آسانی ے اپنے باپ کو للکار سکتی تھی کہ میں کوئی پیغمبرزادی نہیں ہوں اور نہ تم کوئی پیغمبر ہو کیونکہ ہمارا دین تو صدیوں پہلے کامل ہو چکا ہے پھر تمہیں کیا مصیبت پڑی ہے کہ خواہ مخواہ میری گردن کاٹ کر ادھوری سنتیں پوری کرو لیکن رشیدہ انجان تھی کم عقل تھی اور فصاحت و بلاغت کی ایسی تشبیہات اور تلمیحات استعمال کرنے سے قاصر تھی وہ محض عبداللہ کے قدموں پر سر رکھے بلک بلک کر رو رہی تھی ، ابا۔۔۔ابا۔۔۔ آپا ۔۔۔۔آپا۔۔۔۔رشید کی گڑگڑاہت پر عبداللہ کے پاوٍں بھی ڈگمگا گئے ا نے چھری ہاتھ ے پھینک دی بہروپیوں کی طرح اس نے رشیدہ کو ایک بد صورت ی بڑھیا میں ڈھال دیا اور کلمہ کا ورد کرتے ہوئے اسے ساتھ لے کر ٹرک میں بیٹھ گیا جب ٹرک والے نے قافلے کو سوچیت گڑھ اتارا اور وہ لوہے کا پھاٹک عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے تو یکا یک عبداللہ کو زہرہ اور عطیہ کی یاد آئی جن کے سر جموں میں دروازے کی دہلیز پر کٹے ہوئے پڑے تھے اور جو پھٹی پھٹی منجمد آنکھوں سے چھت کی طرف دیکھتے دیکھتے دم توڑ گئی تھیں وہ کمر تھام کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا اور رشیدہ کو گلے سے لگائے دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتا رہا ۔سیالکوٹ کے مہاجر کیمپ میں آکر رفتہ رفتہ رشیدہ کی زلفیں پھر لہرانے لگیں اس کی سرمگیں آنکھوں میں پھر وہی پرانی چمک جگمگانے لگی لیکن ہولے ہولے عبداللہ نے محسوس کیا کہ ا چمک میں جو شبنم کی سی تازگی اور ستاروں کی سی پاکیزگی جھلکا کرتی تھی وہ ماند پڑ رہی ہے اور ایک دن اس نے خود اپنی آنکھوں ے دیکھ لیا کہ ناموس ملت کے جن انمول آبگینوں کو وہ ڈوگروں اور سکھوں کے نرغے سے بچا لایا تھا وہ خدا کی مملکت میں سر بازار بک رہے ہیں آدھی آدھی رات گئے جب رشیدہ واپس آتی تو ا کا دامن پھلوں مٹھائیوں رنگ برنگ کپڑوں پاوٍڈر اور کریم وغیرہ کے خوبصورت پیکٹوں ے بھرا ہوتا تھا عبداللہ غضبناک ہو کر اسے مارتا پیٹتا اور رشیدہ کو پچھاڑ کر اس کا گلا گھونٹنے لگتا جب رشیدہ کا سانس اکھڑنے لگتا اور اس کی آنکھیں باہر نکلنے لگتیں تو اچانک اسے جموں کی وہ خون آلود دہلیز یاد آجاتی جس پر وہ زہرز اور عطیہ کی بے نور آنکھوں کو چھت کی طرف گھورتے چھوڑ آیا تھا عبداللہ کے ہاتھ رعشہ کھا کر لرز اٹھتے اس کا سر لٹو کی طرح اس کی گردن پر گھومنے لگتا اور وہ رشیدہ کو چھوڑ کر کیمپ کے دوسرے کنارے پر بیٹھا ساری رات روتا رہتا ۔ایک روز رشیدہ نے ترس کھا کر خود ھی اپنے باپ کو روز روز کی اذیت سے نجات دے دی ا س نے کیمپ چھوڑ دیا اور راتوں رات کسی کے ساتھ فرار ہو کر نجانے کہاں غائب ہو گئی۔ "​
 

حسینی

محفلین
بہت اچھا انتخاب ہے زبیر بھائی۔۔۔ اس ڈائری کے اور حصوں کو بھی شیر کیجیے گا۔
مجھے خود "شہاب نامہ" میں ڈپٹی کمشنر کی ڈائری سب سے زیادہ پسند آیا تھا۔۔۔ خاص طور پر وہ ایک بڑھیا کی کہانی جو تھی۔۔۔
 

مہ جبین

محفلین
اففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی لرزہ خیز داستانِ الم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی کہنے کو نہیں ۔۔۔!!!
 

یوسف-2

محفلین
بہت بہت شکریہ زبیر بھائی! شہاب نامہ جب تازہ تازہ پہلی مرتبہ چھپا تھا تب ہی اسے مکمل پڑھ لیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ پڑھنے کی کبھی ”ہمت“ نہیں ہوئی۔ :)
 

زرقا مفتی

محفلین
شہاب نامہ لڑکپن میں پڑھا تھا ۔ مجھے یاد ہے میرے نانا ابو نے ہم دونوں بہنوں سے رائے طلب کی تو میں نے ماں جی کی بہت تعریف کی ۔ نانا ابو مسکرائے اور کہنے لگے تم بہت سادہ ہو یہ سچ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے بڑے افسر کی بیگم ہو اور دو جوڑوں میں زندگی گزار دے۔ اور شوہر سے صرف دو آنے کا مطالبہ کرے۔
شادی کے بعد محسوس ہوا کہ واقعی شہاب نامہ میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے ۔ میری رائے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں
 
Top