ڈکٹر دعاگو۔۔۔۔ص 96-105

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 96-105



عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
لیکن خواب گاہ میں دوسرے فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ جھپٹ کر وہاں پہنچا۔ ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے کوئی عورت اس کا نام لے رہی تھی۔
“ہاں۔ ہاں۔ آپ کون ہیں؟“ عمران نے پوچھا
“مارتھا۔ ڈاکٹر کی سیکرٹری۔“ دوسری طرف سے آواز آئی، “میں سول ہسپتال سے بول رہی ہوں۔“
“اب کیسی طبیعت ہے۔!“
“اچھی ہوں۔ چل پھر سکتی ہوں۔“
“اور ڈاکٹر!“
“ہوش میں ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کا خیال ہے کہ ابھی نقل و حرکت سے باز رہیں تو بہتر ہے۔۔۔۔ دیکھو عمران تم نے صرف ایک بار مجھے اپنا فون نمبر بتایا تھا۔ میری یاد داشت کی داد دو۔!“
“عورت یادداشت کے لئے ہی تو مشہور ہے۔“
“دل الجھ رہا ہے۔ کیا کروں۔۔“
“لوڈو کیوں نہیں کھیلتیں۔؟“
“کیا تم سو رہے تھے۔۔؟“
“نہیں۔ ارادہ کر رہا تھا۔“
“تو یہیں آ جاؤ نا۔ میں انتظار کروں گی۔ اب کیا کرو گے سو کر۔ تین تو بج رہے ہیں۔“
عمران نے طویل سانس لی اور ہونٹ سکوڑ کر سر کھجانے لگا۔!
“ہلو۔۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
“تو پھر آ رہے ہو نا۔ میں ڈاکٹر کے آفس میں ملوں گی۔ اس وقت یہاں صرف ایک ہی خوش اخلاق لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“
“میں آ رہا ہوں۔“ عمران نے مردہ سی آواز میں کہا۔
بیس منٹ بعد وہ ہسپتال میں تھا۔ وہ مطب ہی میں ملی۔ جس لیڈی ڈاکٹر کا تذکرہ فون پر کر چکی تھی۔ شاید کسی مریض کو دیکھنے چلی گئی تھی۔ بہرحال مارتھا تنہا ہی ملی۔
“ہلو۔۔!“ وہ بڑی گرمجوشی سے عمران کی طرف جھپٹی۔!
عمران نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ کر مصافحے کے لئے بڑھا دیا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کیوں؟“ مصافحہ کرتے وقت مارتھا اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔ “تم کچھ بجھے بجھے سے نظر آ رہے ہو۔“
“نظر تو آ رہا ہوں نا۔“ عمران ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔ “ورنہ تین بجے۔“
ایک جمائی بھی آئی۔۔۔۔ اور وہ احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکانے لگا۔
“تمہیں میری صحت یابی پر خوشی نہیں ہوئی،“
“ہونی چاہئے!“ عمران احمقانہ انداز میں بولا۔
“خفا ہو جاؤں گی۔“ مارتھا نے بچگانہ انداز میں کہا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہ کر بولی۔ “تم بیٹھتے کیوں نہیں؟“
“یہ بیٹھنے کا وقت ہے؟“ عمران نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں پوچھا۔
“میرا خیال ہے تم جاگ ہی رہے تھے۔“ مارتھا نے جھینپی ہوئی ہنسی کے ساتھ کہا “فوراً ہی تم نے ریسیور اٹھایا تھا۔“
“مم۔ مگر وہ سُوئی کیسی تھی۔۔۔۔ مارتھا۔“
“میں خود نہیں جانتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ برابر سے گزرنے والی وین ہی سے آئی تھی۔“
“لیکن کیوں؟“
“خدا جانے۔ اس کی چبھن کے ساتھ ہی سر چکرانے لگا تھا۔!“
“ڈاکٹر کو تم نے اس کے بارے میں بتایا ہے۔!“ عمران نے پوچھا۔
“مجھے ان کے پاس جانے ہی نہیں دیا گیا۔!“
عمران کسی سوچ میں پڑا ہو یا نہ پڑا ہو لیکن معلوم یہی ہو رہا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ ویسے حقیقت یہ تھی کہ وہ آنکھیں کھول کر بھی اونگھ سکتا تھا۔
“آج سردی بہت ہے۔“ مارتھا نے کہا۔
“ہوں۔“ عمران چونک کر اسے گھورنے لگا۔
“میں نے کہا آج سردی بہت ہے۔!“
“اور تم نے اسٹاکنگ بھی نہیں پہنے۔“ عمران نے بزرگانہ انداز میں کہا۔ “میں سوچتا ہوں کہ سرد ممالک کی سفیدفام عورتیں شاید انگارے چباتی ہیں۔ جبھی تو۔۔۔۔ اتنے اونچے اسکرٹ میں رہ کر بھی اسٹاکنگ نہیں پہنتیں۔۔۔۔!“
“میں نے ایک لڑکی دیکھی تھی۔“ مارتھا بولی۔ “اس کا پاجامہ مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ پنڈلیوں پر منڈھا ہوا۔۔۔۔ چست اور ٹخنوں پر بڑی حسین سلوٹیں تھیں۔۔۔۔ اسے کیا کہتے ہیں۔۔!“
“چوڑی دار۔۔۔۔!“ عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “اکثر مرد بھی پہنتے ہیں۔۔ لیکن وہ میری ہمدردیاں کبھی حاصل نہیں کرسکے۔۔!“
“مردوں پر تو اچھا نہ لگتا ہوگا۔“
عمران کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک برآمدے سے کچھ اس قسم کے شور کی آواز آئی جیسے بہت سے کتے آپس میں لڑ پڑے ہوں اور ان کے حلق سے صرف غراہٹیں نکل رہی ہوں۔ پھر ایک نسوانی چیخ بھی سنائی دی۔ عمران دروازے کی طرف جھپٹا۔۔!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
برآمدے میں اندھیرا تھا۔ ابھی کچھ دیر قبل جب عمران آیا تھا بہت زیادہ برقی قوت کے کئی بلب روشن تھے۔
شور بدستور جاری رہا۔ عورت بھی مسلسل چیخے جا رہی تھی۔
“کون ہے۔ کیا ہے؟“ عمران دہاڑا۔ اور ٹھیک اسی وقت اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی دہکتا ہوا انگارہ بائیں بازو کے گوشت کو چھید کر دوسری طرف نکل گیا ہو۔ اس کے حلق سے ایک کربناک غراہٹ سی نکلی اور ایسا معلوم ہوا جیسے اب وہ کھڑا نہ رہ سکے گا۔ سر چکرایا اور وہ آگے پیچھے جھولتا ہوا دیوار سے ٹک گیا۔ داہنا ہاتھ بازو پر تھا اور اس حصے کو وہ شدت سے بھینچ رہا تھا جہاں چنگاریاں سی بھر گئی تھیں۔
فائر بےآواز ہوا تھا۔ اور اب تو برآمدے میں گہرا سکوت تھا۔ وہ شور جس نے عمران کو برآمدے تک آنے پر مجبور کیا تھا کبھی کا فرو ہو چکا تھا۔
“عمران تم کہاں ہو۔!“ مارتھا کی خوفزدہ سی آواز سناٹے سے ابھری اور پھر ادھر ادھر سے بھی بھاگ دوڑ کی آوازیں آنے لگیں۔
بلب پھر روشن ہو گئے۔ ہسپتال کا عملہ برآمدے میں اکٹھا ہو گیا تھا اور وہ سب ایک دوسرے سے شور کی وجہ پوچھ رہے تھے۔ مارتھا جھپٹ کر عمران کے قریب پہنچی۔ وہ اب بھی اسی طرح دیوار سے ٹکا کھڑا تھا اور جھولے ہوئے بائیں ہاتھ سے خون رس رس کر فرش پر جمتا جا رہا تھا۔
“عمران۔عمران۔ یہ کک۔ کیا ہوا“ اس نے روہانسی آواز میں پوچھا۔
“ڈیوٹی ڈاکٹر سے کہو میرے آپریشن کا انتظام کرے۔ گولی لگی ہے میرے بازو میں!“ عمران نے آہستہ سے کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“گولی۔“ مارتھا اچھل پڑی اور ہسٹریائی انداز میں چیخی۔ “ڈاکٹر۔ ڈاکٹر۔“
ڈیوٹی ڈاکٹر جو شاید برآمدے ہی میں موجود تھی۔ جھپٹتی ہوئی ادھر آئی۔
“گگ۔ گولی لگی ہے۔ ان کے گولی لگی ہے۔“ مارتھا بولی۔
“گولی۔ کہاں لگی ہے۔ کیسے لگی۔؟“ لیڈی ڈاکٹر نے عمران سے کہا۔
“یہیں اندھیرے میں کسی نے فائر کیا تھا۔ مجھ پر۔۔ “ عمران نے کہا
“لیکن فائر کی آواز۔۔۔۔“
“وہ بےآواز فائر تھا۔ جلدی کیجئے محترمہ۔۔۔۔ خون مفت میں ضائع ہو رہا ہے۔“
اسے آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔ ڈیوٹی سرجن آپریشن روم میں ہی خراٹے لے رہا تھا۔ اس طرح جگائے جانے پر اس کے چہرے پر پھٹکار سی برسنے لگی تھی اور اس نے عمران کو اس طرح گھورا تھا جیسے کہہ رہا ہو ۔“مر ہی کیوں نہ گئے۔ اگر گولی لگی تھی۔“
جب واقعات معلوم ہوئے تو جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔ “میں کہتا ہوں جب تک نرس لڑکیاں ہسپتالوں میں کام کرتی رہیں گی یہی ہوگا، آخر وہ کون سا کام ہے جو میل نرس نہیں کر سکتے۔“
“یہ کہاں کا قصہ چھیڑ دیا حضرت۔!“ عمران بولا۔
“آپ یہاں کیوں تشریف لائے تھے اس وقت۔۔۔۔ کیا کسی نرس کا چکر نہیں تھا۔ کیا آپ کے رقیبوں نے آپ پر گولی نہیں چلائی۔“
چونکہ مارتھا بھی موجود تھی اس لئے وہ سرجن صاحب انگریزی میں گفتگو فرما رہے تھے۔ اس لئے مارتھا پر بھی جھلاہٹ کا دورہ پڑنا ضروری ہو گیا۔
“یہ کیسی باتیں چھیڑ دیں تم نے۔ دس عورتیں تو اس کے پیچھے لگی پھرتی ہوں گی۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ سڑی بسی نرسوں کے پیچھے مارا مارا پھرے گا۔۔۔۔ ہوش کی دوا کرو۔“
بات بڑھ جاتی لیکن لیڈی ڈاکٹر نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔
گولی نے ہڈی کو گزند نہیں پہنچایا تھا۔ شریانوں کو منتشر کرتی اور گوشت چھیدتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی تھی۔ کافی خون بہا تھا۔ عمران کو نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔
آپریشن کے بعد ایک ٹرالی جنرل وارڈ کی طرف لے چلی۔
“نہیں پرائیویٹ وارڈ میں لے چلو۔“ مارتھا نے کہا۔
“کوئی کمرہ خالی نہیں ہے۔“ ڈاکٹر نے کہا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میرا کمرہ تو ہے۔“
“ہاں یہ ممکن ہے۔۔۔۔مگر وہاں ایک ہی بستر ہے۔“
“فکر نہ کرو۔ میں سب کچھ دیکھ لوں گی۔“
عمران اس کے بستر پر لیٹ گیا تھا اور وہ کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔
“اب تم کہاں لیٹو گی۔“ عمران نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ اس کی پلکیں نیند کے دباؤ سے جھکی پڑ رہی تھیں۔
“اب سو کر کیا کروں گی۔ صبح تو ہو رہی ہے۔ تم سو جاؤ۔“
عمران نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ سر شدت سے چکرا رہا تھا۔۔۔۔ اوع پھر نیند نے پوری طرح اسے اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔
پھر جاگا تو دن چڑھ چکا تھا۔ مارتھا اب بھی وہیں بیٹھی نظر آئی جہاں اس کے سونے سے قبل بیٹھی تھی۔
“میرے نمبر رنگ کر کے جوزف کو یہاں بلاؤ۔“ اس نے مارتھا سے کہا۔
“اس حبشی کو۔۔!“
“ہاں۔۔!“
مارتھا کمرے سے چلی گئی۔ عمران نے کراہ کر داہنی کروٹ لی۔ پورا ہاتھ مواد سے بھرا ہوا پھوڑا معلوم ہو رہا تھا۔ عمران سوچ رہا تھا کہ اس نے ڈوہرنگ کی نشانہ بازی کے متعلق پہلے بھی کچھ سنا تھا۔ تھوڑی دیر بعد مارتھا نے واپس آ کر بتایا کہ اس نے جوزف تک عمران کا پیغام پہنچا دیا ہے۔!
عمران کچھ نہ بولا۔۔۔۔ اب بھی ذہن پر نیند سوار تھی۔ ہو سکتا ہے پچھلی رات اسے کوئی تیز قسم کی خواب آور دوا بھی دی گئی ہو۔!
ناشتہ اس نے لیٹے لیٹے ہی کیا۔ کیونکہ مارتھا اس پر مصر تھی۔ پھر چمچے سے اسی نے چائے بھی پلائی۔
عمران سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی تو جان کو آ گئی ہے۔ اگر معاملات آگے بڑھ گئے تو کیا ہو گا۔
“ڈاکٹر نے تمہیں بولنے سے تو نہیں روکا۔“ مارتھا نے مسکرا کر کہا۔
“ہوں۔“ عمران بھی مسکرایا۔
“یہ۔ آخر پچھلی رات کو ہوا کیا تھا۔!“
“پتہ نہیں۔!“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“کسی عورت کے چیخیں بھی تو سنی تھیں میں نے۔“
“میں نے بھی سنی تھیں۔ چیخا ہی کرتی ہیں عورتیں کوئی خاص بات نہیں۔“
“کیا مطلب؟“ مارتھا نے آنکھیں نکالیں۔
“کچھ بھی نہیں۔ مطلب صاف ہے۔ کہو تو تمہیں بھی چیخنے پر مجبور کر دوں۔۔۔۔ ڈاکٹر کا کیا حال ہے۔“
“پتہ نہیں!“ مارتھا کچھ سوچتی ہوئی بولی۔ “مجھے ان کے پاس جانے ہی نہیں دیا جاتا۔“
“تم کب سے ہو ڈاکٹر کے پاس۔“
“بہت دنوں سے۔ جب وہ انگلینڈ میں تھے۔ تب ہی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انہوں نے مجھے ملازمت کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ایشیا کے مختلف ملکوں میں کام کرنا چاہتے تھے۔ مجھے بچپن ہی سے ملک ملک کی سیر کا شوق تھا۔ لہٰذا آمادہ ہو گئی۔“
“تمہارے والدین کہاں ہیں۔“
“اسکاٹ لینڈ میں۔“
“تو پھر اب تم کبھی نہ کبھی واپس ضرور جاؤ گی۔“
“ضروری نہیں۔!“
“والدین یاد نہیں آتے۔“
“باپ سوتیلا ہے۔ اور ماں۔۔۔۔ ہاں ماں کی یاد اکثر ستاتی ہے لیکن کیا کیا جائے۔ تم لوگ اچھے ہو کیانکہ تمہارے والدین تمہارے لئے کماتے ہی رہتے ہیں خواہ تم بوڑھے ہی کیوں نہ ہو جاؤ۔“
“والدین نہیں۔ صرف والد۔“
مارتھا نے لاپرواہی سے شانے سکوڑے۔
“ڈاکٹر کے پاس اکثر غیرملکی لوگ بھی آتے ہوں گے۔“
“اکثر۔“
“کبھی کوئی کرنل ڈوہرنگ بھی آیا ہے۔“
“ڈوہرنگ۔ ڈوہرنگ۔!“ مارتھا کچھ سوچتی ہوئی بڑبڑائی۔ “رات یہاں کوئی کلارا ڈوہرنگ بھی آئی ہے۔ رقص گاہ میں بیہوش ہو گئی تھی۔“
“وہ میرے ساتھ ہی رقص کر رہی تھی۔“
“تمہارے ساتھ۔ کیوں؟“ مارتھا کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
“بس سر پر سوار ہوگئی تھی کہ ناچو میرے ساتھ۔! اور اس کا بھی وہی حشر ہوا جو تمہارا ہوا تھا۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“میں نہیں سمجھی۔!“
“گراموفون کی سوئی۔!“
“نہیں؟“ مارتھا اچھل پڑی۔
“یقین کرو۔ یہی ہوا تھا۔ اس کے بازو سے بھی میں نے سوئی نکالی تھی۔“
“یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ کیا ہو رہا ہے۔“
“تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کرنل ڈوہرنگ کے متعلق۔“
“نہیں۔ اس نام کا کوئی آدمی کبھی نہیں آیا۔ لیکن مجھے بتاؤ یہ کیا ہے۔“
“میں خود بھی نہیں جانتا۔؟“
اتنے میں دروازے پر کسی نے دستک دی۔ مارتھا نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ آنے والا جوزف تھا۔ خاکی لباس میں ملبوس! بلٹ ہولسٹروں میں دونوں جانب ریوالور لٹک رہے تھے اور پیٹی کارتوسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس نے فوجیانہ انداز میں ایڑیاں بجا کر عمران کو سیلوٹ کیا اور بولا۔ “باس یہاں کیوں لیٹے ہو۔“
“یہاں کیوں لیٹتا ہے کوئی آدمی!“ عمران نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
“ملیریا۔!“ جوزف نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
“نہیں۔ ریوالور کی گولی۔! میرا بایاں بازو زخمی ہے۔“
“کیا؟“ جوزف کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ پھر اس نے بوکھلا کر پوچھا “ہڈی تو محفوظ ہے نا۔!“
“تمہاری کھوپڑی ہی کی طرح۔ اس کی پرواہ نہ کرو۔!“
“وہ کون تھا باس مجھے بتاؤ۔ یہ بڑی خراب بات ہے کہ تم ایسی مہمات تنہا سر کرنے کی کوشش کرتے ہو۔“
“ابے اندھیرے میں کسی نے مار دی گولی۔“
“کہاں۔ اور کب۔“
“یہیں پچھلی رات کو۔“
“تمہیں پہچان کر گولی چلائی تھی یا یونہی کسی اور کے حصے کی تمہاری طرف بھٹک گئی تھی۔“
“میرا خیال ہے کہ میری آواز پر فائر کیا گیا تھا۔ کسی بےآواز ریوالور سے۔“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“اندھیرے میں۔!“ جوزف نے پوچھا۔
“ہاں۔ ہاں۔ اندھیرے میں۔“
“تب تو۔۔ تب تو مجھے سوچنے دو باس۔ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“
“کس کے علاوہ۔۔!“
“اس کا نام نگونڈا ہے۔“
“نگوڑا۔“ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
“نہیں نگونڈا۔ میرا ہم وطن ہے اور ادھر چار ماہ سے یہاں دکھائی دے رہا ہے۔ ایک غیرملکی سفارت خانے میں ملازم ہے۔“
“کس سفارتخانے میں!“ عمران نے اٹھنے کی کوشش کی۔ لیکن مارتھا سینے پر ہاتھ رکھ کر زور دیتی ہوئی بولی۔ “باتیں لیٹے لیٹے بھی ہو سکتی ہیں۔“
جوزف اسے قہرآلود نظروں سے گھور کر رہ گیا۔ غالباً عمران کے سینے پر ہاتھ رکھنا اسے گراں گزرا تھا۔
“تم فکر نہ کرو باس!“ جوزف جلدی سے بولا۔ “اب میں سمجھ بوجھ لوں گا۔۔ وہ اندھیرے میں محض آواز پر بڑا اچھا نشانہ لگا سکتا ہے۔ ویسے اس کا آقا بھی قادرانداز ہے۔“
“کون آقا۔۔!“
“ایک ہے کرنل ڈوہرنگ۔“
“میرے خدا پھر وہی کرنل ڈوہرنگ!“ مارتھا بڑبڑائی۔
“تم کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کرو گی۔ سمجھیں اچھی لڑکی۔“
“کیوں۔ آخر کیوں؟۔ ابھی پولیس آئے گی۔ اسے کیا بیان دو گے۔“
“یہی کہ اندھیرے میں کسی نے فائر کیا تھا۔“
“مگر یہ کرنل ڈوہرنگ۔!“
“اسے جہنم میں جھونکو!“
“پتہ نہیں یہ سب کیا ہو رہا ہے اور تم کیا کر رہے ہو۔! کیا میں تمہارے گھر پر فون کروں۔ ڈاکٹر نے تمہارے متعلق سب کچھ بتایا تھا۔ تمہاری والدہ ان کی مریضہ ہیں۔ میں بھی ڈاکٹر کے ساتھ اکثر تمہارے گھر گئی ہوں۔“
“تم یہ سب کچھ ہرگز نہیں کرو گی۔“ عمران نے سخت لہجے میں کہا اور مارتھا روہانسی ہو گئی اور پھر کچھ نہ بولی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“تم کرنل ڈوہرنگ کے بارے میں اور کیا جانتے ہو!“ عمران نے جوزف سے پوچھا۔
“بہت کچھ۔ وہ ایک خطرناک آدمی ہے۔ میرے ملک پر وہ بڑی تباہی لایا تھا۔ پتہ نہیں کتنے کالوں کا خون اس کی گردن پر ہے۔۔۔۔ قتلِ عام کرا دیا تھا۔ یہ سرکاری ملازم بھی تھا اور غلاموں کی تجارت بھی کرتا تھا۔ بھیڑ بکریوں کی طرح اس نے میرے ہموطنوں کو فروخت کیا تھا۔“
“نگونڈا کیسا آدمی ہے؟“
“ولدالحرام۔!“ جوزف نے عربی میں کہا۔ “اس کی ماں ایک حرافہ تھی۔ دس شوہروں میں سے وہ پتہ نہیں کس کا نطفہ ہے۔“
“اوور۔ جوزف!“ عمران اسے داہنے ہاتھ سے گھونسا دکھا کر بولا۔ “میں نے اس کی شادی نہیں طے کی ہے جو تو اس کا شجرہ نسب کھول کر بیٹھ گیا ہے۔“
“میں تو یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسے آدمی سے حرامی پن ہر حال میں سرزد ہوتا ہے۔“ جوزف نے لاپرواہی سے کہا، “اب تم دیکھنا باس کہ کیسی چٹنی بناتا ہوں اس کی۔“
“خبردار۔۔۔۔ مجھ سے پوچھے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھانا۔“
“میں کیا جنت میں تم سے پوچھنے جاؤں گا۔ تم اب گھر چلو۔ یہاں بہت آسانی سے مار لیے جاؤ گے۔ جب اس کو معلوم ہوگا کہ اس کا نشانہ خطا ہو گیا تھا تو وہ غصے سے پاگل ہو جائے گا اور دوبارہ کوشش کرے گا۔“
“ہسپتال میں مرنے میں فائدہ ہے!“ عمران سر ہلا کر بولا۔ “میرا بینک بیلنس کفن کا متحمل نہ ہو سکے گا۔“
“یہ کیا فضول باتیں شروع کر دیں تم نے۔ اگر یہاں خطرہ ہے تو تمہیں گھر ہی چلا جانا چاہئے۔“ مارتھا جھلا کر بولی۔
ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ یہ ڈیوٹی ڈاکٹر تھا۔ اس نے اطلاع دی کہ پولیس عمران کا بیان لینا چاہتی ہے۔
“آنے دو۔“ عمران نے کہا اور ڈاکٹر چلا گیا۔
“ابھی نونڈا کا نام نہ لینا باس۔!“
“بکواس بند کرو۔“ عمران نے کہا۔
کچھ دیر بعد وہی سب انسپکٹر کمرے میں داخل ہوا جس سے مارتھا ہی کے سلسلے میں کچھ دن پہلے بھی سول ہسپتال ہی میں سابقہ پڑ چکا تھا! اس نے سب سے پہلے جوزف کو گھور کر دیکھا۔ “تم کون ہو۔؟“
 

فرحت کیانی

لائبریرین
“نوبل جوزف۔۔۔۔ ہیوی ویٹ ایکس چمپیئن۔“ جوزف غرایا۔
“میرا باڈی گارڈ ہے۔“ عمران بولا۔ “ریوالوروں کو بھی نہ گھورئیے لائسنس ہے میرے پاس۔“
“آپ خود کو زیرِ حراست سمجھئے جناب!“
“وارنٹ ہے آپ کے پاس۔!“
“جی نہیں! ایک عام سرکلر تھانوں کو بھیجا گیا ہے کہ آپ جہاں بھی ملیں گرفتار کر لیے جائیں۔“
“کس کا سرکلر ہے؟“
“ڈی جی آف انٹیلی جنس بیوریو کا۔!“
عمران نے طویل سانس لی اور بولا۔ “کیا مجھے فون تک جانے کی اجازت مل سکے گی۔“
“ضرور۔ ضرور۔“ سب انسپکٹر مسکرایا۔
“نہیں۔ تمہیں چلنا پھرنا نہ چاہئے۔“ مارتھا بول پڑی۔ گفتگو چونکہ انگریزی میں ہو رہی تھی اس لئے وہ متحیر نظر آ رہی تھی۔
“ڈاکٹر نے ایسی کوئی بات نہیں کہی محترمہ۔!“ سب انسپکٹر نہایت ادب سے بولا۔
“میں چل رہا ہوں۔۔۔۔ فون تک۔“ عمران اٹھتا ہوا بولا۔


۔۔۔۔۔

مارتھا بھی فون والے کمرے تک ساتھ آئی تھی اور مسلسل کچھ بڑبڑائے جا رہی تھی۔ لیکن الفاظ غیرواضح ہونے کی بناء پر سمجھے نہیں جا سکے تھے۔
فون پر عمران نے اپنے والد رحمان صاحب کے نمبر ڈائیل کئے۔ دوسری طرف سے “ہیلو“ کی شکل میں مخصوص قسم کی غراہٹ سنائی دی۔
“میں عمران ہوں ڈیڈی۔!“
“کہاں ہو؟“
“سول ہسپتال میں۔ پچھلی رات کو یہیں میرے بائیں بازو میں گولی لگی تھی۔“
“ہوں۔ اب کیا حال ہے۔“
“خدا کے فضل سے بچ گیا ہوں۔“

۔۔۔اختتام۔۔۔
ص 96-105
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top