فرحت کیانی
لائبریرین
ڈاکٹر دعاگو
ص 96-105
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
لیکن خواب گاہ میں دوسرے فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ جھپٹ کر وہاں پہنچا۔ ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے کوئی عورت اس کا نام لے رہی تھی۔
“ہاں۔ ہاں۔ آپ کون ہیں؟“ عمران نے پوچھا
“مارتھا۔ ڈاکٹر کی سیکرٹری۔“ دوسری طرف سے آواز آئی، “میں سول ہسپتال سے بول رہی ہوں۔“
“اب کیسی طبیعت ہے۔!“
“اچھی ہوں۔ چل پھر سکتی ہوں۔“
“اور ڈاکٹر!“
“ہوش میں ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کا خیال ہے کہ ابھی نقل و حرکت سے باز رہیں تو بہتر ہے۔۔۔۔ دیکھو عمران تم نے صرف ایک بار مجھے اپنا فون نمبر بتایا تھا۔ میری یاد داشت کی داد دو۔!“
“عورت یادداشت کے لئے ہی تو مشہور ہے۔“
“دل الجھ رہا ہے۔ کیا کروں۔۔“
“لوڈو کیوں نہیں کھیلتیں۔؟“
“کیا تم سو رہے تھے۔۔؟“
“نہیں۔ ارادہ کر رہا تھا۔“
“تو یہیں آ جاؤ نا۔ میں انتظار کروں گی۔ اب کیا کرو گے سو کر۔ تین تو بج رہے ہیں۔“
عمران نے طویل سانس لی اور ہونٹ سکوڑ کر سر کھجانے لگا۔!
“ہلو۔۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
“تو پھر آ رہے ہو نا۔ میں ڈاکٹر کے آفس میں ملوں گی۔ اس وقت یہاں صرف ایک ہی خوش اخلاق لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“
“میں آ رہا ہوں۔“ عمران نے مردہ سی آواز میں کہا۔
بیس منٹ بعد وہ ہسپتال میں تھا۔ وہ مطب ہی میں ملی۔ جس لیڈی ڈاکٹر کا تذکرہ فون پر کر چکی تھی۔ شاید کسی مریض کو دیکھنے چلی گئی تھی۔ بہرحال مارتھا تنہا ہی ملی۔
“ہلو۔۔!“ وہ بڑی گرمجوشی سے عمران کی طرف جھپٹی۔!
عمران نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ کر مصافحے کے لئے بڑھا دیا۔
ص 96-105
عمران نے سلسلہ منقطع کر دیا۔
لیکن خواب گاہ میں دوسرے فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ جھپٹ کر وہاں پہنچا۔ ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے کوئی عورت اس کا نام لے رہی تھی۔
“ہاں۔ ہاں۔ آپ کون ہیں؟“ عمران نے پوچھا
“مارتھا۔ ڈاکٹر کی سیکرٹری۔“ دوسری طرف سے آواز آئی، “میں سول ہسپتال سے بول رہی ہوں۔“
“اب کیسی طبیعت ہے۔!“
“اچھی ہوں۔ چل پھر سکتی ہوں۔“
“اور ڈاکٹر!“
“ہوش میں ہیں۔ لیکن ڈاکٹر کا خیال ہے کہ ابھی نقل و حرکت سے باز رہیں تو بہتر ہے۔۔۔۔ دیکھو عمران تم نے صرف ایک بار مجھے اپنا فون نمبر بتایا تھا۔ میری یاد داشت کی داد دو۔!“
“عورت یادداشت کے لئے ہی تو مشہور ہے۔“
“دل الجھ رہا ہے۔ کیا کروں۔۔“
“لوڈو کیوں نہیں کھیلتیں۔؟“
“کیا تم سو رہے تھے۔۔؟“
“نہیں۔ ارادہ کر رہا تھا۔“
“تو یہیں آ جاؤ نا۔ میں انتظار کروں گی۔ اب کیا کرو گے سو کر۔ تین تو بج رہے ہیں۔“
عمران نے طویل سانس لی اور ہونٹ سکوڑ کر سر کھجانے لگا۔!
“ہلو۔۔!“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
“تو پھر آ رہے ہو نا۔ میں ڈاکٹر کے آفس میں ملوں گی۔ اس وقت یہاں صرف ایک ہی خوش اخلاق لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہے۔ اسے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔“
“میں آ رہا ہوں۔“ عمران نے مردہ سی آواز میں کہا۔
بیس منٹ بعد وہ ہسپتال میں تھا۔ وہ مطب ہی میں ملی۔ جس لیڈی ڈاکٹر کا تذکرہ فون پر کر چکی تھی۔ شاید کسی مریض کو دیکھنے چلی گئی تھی۔ بہرحال مارتھا تنہا ہی ملی۔
“ہلو۔۔!“ وہ بڑی گرمجوشی سے عمران کی طرف جھپٹی۔!
عمران نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ کر مصافحے کے لئے بڑھا دیا۔