طارق شاہ
محفلین
غزلِ
میرا جی
ڈھب دیکھے تو ہم نے جانا، دل میں دُھن بھی سمائی ہے
میرا جی دانا تو نہیں ہے، عاشق ہے، سودائی ہے
صبح سویرے کون سی صُورت پُھلواری میں آئی ہے
ڈالی ڈالی جُھوم اُٹھی ہے، کلِی کلِی لہرائی ہے
جانی پہچانی صُورت کو اب تو آنکھیں ترسیں گی
نئے شہرمیں جِیون دیوی نیا رُوپ بھر لائی ہے
ایک کِھلونا ٹُوٹ گیا تو اورکئی مِل جائیں گے
بالک! یہ انہونی تجھ کو کس بیری نے سُجھائی ہے
دھیان کی دُھن ہے امرگیت، پہچان لِیا تو بولے گا
جس نے راہ سے بھٹکایا تھا وہی راہ پر لائی ہے
بیٹھے ہیں پھلواری میں، دیکھیں کب کلِیاں کِھلتی ہیں
بھنور بھاؤ تو نہیں ہے، کس نے اِتنی راہ دِکھائی ہے؟
جب دل گھبرا جاتا ہے، تو آپ ہی آپ بہلتا ہے
پریم کی رِیت اِسے جانو پر ہونی کی چترائی ہے
امیدیں، ارمان سبھی جُل دے جائیں گے، جانتے تھے
جان جان کے دھوکے کھائے، جان کے بات بڑھائی ہے
اپنا رنگ بھلا لگتا ہے، کلِیاں چٹکیں، پھُول بنیں
پُھول پُھول یہ جُھوم کے بولا، کلیو! تم کوبدھائی ہے
آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کس کا بیاہ رچا ہے؟ دیکھو! ڈھولک ہے شہنائی ہے
ایسے ڈولے من کا بجرا جیسے نین بیچ ہو کجرا
دل کے اندردُھوم مچی ہے جگ میں اُداسی چھائی ہے
لہروں سے لہریں ملتی ہیں ساگر اُمڈا آتا ہے
منجدھارمیں بسنے والے نے ساحل پر جوت لگائی ہے
آخری بات سُنائے کوئی، آخری بات سُنیں کیوں ہم نے
اِس دُنیا میں سب سے پہلے آخری بات سُنائی ہے
میرا جی