ڈھیلی چارپائی از سلمان حمید

سلمان حمید

محفلین
ڈھیلی چارپائی

بابا منیر کھانستے کھانسے بے حال ہونے لگا تو چاچے صدیق نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے حقے کی نالی تھام لی. بابے منیر نے چارپائی کے کنارے بیٹھے بیٹھے اپنا کھسہ اتار کر بائیں پیر سے چارپائی کے تھوڑا نیچے کھسکایا، اپنے سر سے صافہ اتار کر تکیے کے ساتھ رکھا اور سیدھا ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا. اس کی کھانسی اب رک چکی تھی تبھی اس نے کروٹ لے کر اپنا رخ چاچے صدیق کی طرف کر لیا جو گھر کے کچے صحن کے بیچوں بیچ لگے پیپل کے گھنے درخت کے نیچے پڑی اس کی چارپائی کے پاس دھری کرسی پر بیٹھا حقے کے کش پہ کش لگا رہا تھا.
چاچے صدیق نے ایک لحظے کے لیے منہ سے حقے کی نالی پرے کی اور بابے منیر کی میلی سی اس دستار کو دیکھا جو اس کے تکیے کے پاس ایک گچھے کی شکل میں پڑی اپنے سفید ہونے کے ثبوت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہی تھی.
منیر محمدا تو صفیہ سے کہہ کر اسے دھلوا کیوں نہیں لیتا؟ اور یہ کھسہ دیکھا ہے اپنا؟ کم سے کم فضل پتر سے کہہ کر نیا منگوا لے، اسے کون سی پیسوں کی کمی ہے؟ چاچے صدیق کا اگلا نشانہ چارپائی کے پاس پڑا وہ کھسہ تھا جس کی ادھڑی سلائیوں پر تہہ در تہہ جمی مٹی اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ اسے کافی عرصے سے دھویا اور نہ ہی مرمت کیا گیا ہے.
اب مجھ بوڑھی جان کو نئے کھسے کی کیا ضرورت ہے بھلا. اور ویسے بھی صفیہ بیچاری سارا دن دونوں بچوں کے پیچھے ہلکان ہوتی ہے، فضل کو کھیتوں میں دوپہر کا کھانا دے کر آتی ہے. بھینسوں کو بھی سنبھالتی ہے اور رات کو فضل کے آتے ہی اسے گرم گرم روٹیاں بنا کر دیتی ہے. میں تو اس کو اپنا کوئی کام اس لیے نہیں کہتا کہ اپنے شوہر اور بچوں کے کاموں میں سے اسے جو دو گھڑی آرام کا وقت بچتا ہے وہ میں کیوں برباد کر دوں. ویسے بھی مجھے یہاں بیٹھے کو کھانا اور چائے دیتی ہے. صبح جاتے اور واپس آتے ہی فضل حقہ تازہ کر دیتا ہے. میں تو بڑے سکون میں ہوں صدیق، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے. بابے منیر کی آنکھوں میں تشکر اور چہرے پر گہرا اطمینان تھا.
چل جیسے تیری مرضی منیر محمد. میں تو جا کر عصر کی نماز پڑھوں. صدیق نے حقہ چارپائی کے پاس کھسکا کر اس کی نالی کو بل دے کر چارپائی کی بان میں پھنسا دیا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا.
اوئے ٹھہر اور مجھے ذرا اٹھا کے بٹھاتا جا. بابے منیر نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ چاچے صدیق کی طرف بڑھایا تو چاچا صدیق حیران ہو کر اس کو سہارا دیتے ہوئے بولا. منیر محمد خیر تو ہے، اب تجھ سے اٹھا بھی نہیں جاتا؟
نہیں نہیں، بس وہ چارپائی کا بان ڈھیلا ہو گیا ہے کچھ دنوں سے اور مجھے اٹھنے میں بڑا مسئلہ ہوتا ہے. رات بھی ٹھیک طرح نیند نہیں آتی. ایسے لگتا ہے جیسے رسیوں کے اندر ہی دھنس گیا ہوں اور اب کبھی نہیں نکل سکوں گا. بابے منیر کی کھسیانی ہنسی دیکھ کر چاچے صدیق نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنا چاہا تو بابے منیر نے فٹ سے اسے کرسی کی جانب اشارہ کر کے کہا. وہاں بیٹھ جا. ویسے بھی اس کا بان ڈھیلا ہے تو مزید ڈھیلا ہو کر نیچے زمین پر نہ جا پڑے. یہ کرسی اسی لیے رکھوائی ہے کہ فضل پتر کو میرے ساتھ بیٹھتے ہی پتہ لگ جانا تھا کہ چارپائی ڈھیلی ہے تو کسنے کسنے میں اس کا بڑا زور لگ جانا تھا. سارا دن بیچارا تھک ہار کر رات کو گھر آتا ہے تو مجھے اس پر بڑا ترس آتا ہے. اسی لیے چادر اپنے اور چارپائی کے اوپر پھیلا کر لیٹ جاتا ہوں تاکہ اس کو چارپائی کا ڈھیلا پن نظر نہ آئے.
چاچے صدیق نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا کندھے ایسے اچکائے جیسے بابے منیر کی عقل پر ماتم کر رہا ہو اور سلام کر کے صحن کے ایک جانب بنے خارجی دروازے سے باہر نکل گیا.
مغرب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا کہ اچانک باہر شور ہوا. جیسے کچھ لوگ اکٹھے ہو کر اسی گلی میں داخل ہوئے تھے. بابا منیر جو تب سے چارپائی کے پائے سے لگا بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اٹھ کر باہر کی جانب چل دیا. اسی اثنا میں گھر کا دروازہ کھٹکایا گیا اور پھر باہر سے اسی کے نام کی آواز آنے لگی. اسے زور زور سے پکارا جا رہا تھا. اس نے دروازہ کھولا ہی تھا تو گاؤں اور اس کی اپنی گلی کے کچھ لوگ باہر پریشان کھڑے دکھائی دیے. اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، بابے منیر کی نظر دروازے سے کچھ فاصلے پر کھڑی بیل گاڑی پر پڑی جس پر لیٹا ایک وجود اس کو جانا پہچانا لگا. گو کہ شام ہونے میں کچھ وقت تھا لیکن پھر بھی اس کو کچھ ٹھیک طرح سے نظر آیا اور نہ ہی وہ ساری صورتحال سمجھ سکا.
دروازے کے آگے ہجوم بڑھتا جا رہا تھا.
بابا، فضل کی ملک انور کے لڑکے سے سرکاری ٹیوب ویل کے پانی پر بڑی بحث ہو رہی تھی اور بات گریبان پکڑنے تک آگئی. اس سے پہلے کہ ہم پہنچتے وہ بدبخت فضل کو ٹیوب ویل کی موٹر والے کنویں میں دھکا دے کر بھاگ نکلا. ہمارے اس کو نکالتے نکالتے ہی فضل کی جان نکل گئی. ایک محلے دار بابے منیر کو سارا واقعہ سناتے سناتے روہانسا ہو گیا.
بابے منیر کے جسم سے تو جیسے جان نکل گئی. اس نے لڑکھڑاتے ہوئے دروازے کا سہارا لیا تو بیل گاڑی والے نے لوگوں کو پرے ہٹا کر بیل گاڑی کو دروازے کے بالکل پاس لا کھڑا کیا. فضل کے سر سے ابھی بھی تازہ خون رس کر بیل گاڑی کے تختوں کی درمیانی درزوں میں سے اپنی جگہ بنا رہا تھا. بابا منیر اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا.
چلو بھئی ہاتھ دو، لاش کو اندر پڑی چارپائی پر ڈال دیتے ہیں. ہجوم میں سے ابھرتی ہوئی یہ آواز سنتے ہی بابے منیر کے جسم نے حرکت کی اور وہ تیزی سے دروازے کے پٹ کھول کر اندر کی طرف بڑھا. اس نے چارپائی کے اوپر پڑی چادر اور تکیہ اٹھا کر پاس پڑی کرسی پر رکھے اور چارپائی کی پاینتی کی جانب کھڑا ہو کر پائے سے بندھی رسی کی گرہ کھولنے لگا. باہر سے کلمہ شہادت کی آواز ابھری تو بابے منیر نے سرعت سے اپنا دایاں پاؤں چارپائی کے پائے پر رکھا اور اس کے جھریوں والے ہاتھ تیزی سے چارپائی کا بان کسنے لگے.
 
آخری تدوین:
اپنے جواں سال بیٹے کی لاش اٹھانا والدین کے لیے بے شک بہت دکھ کی بات ہے۔ اچھی تحریر داد قبول فرمائیے۔۔
چاچے صدیق نے ایک لحظے کے لیے منہ سے حقے کی نالی پرے کی اور بابے فضل کی میلی سی اس دستار کو دیکھا جو اس کے تکیے کے پاس ایک گچھے کی شکل میں پڑی اپنے سفید ہونے کے ثبوت فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو رہی تھی.
یہاں شاید بابا منیر آنا چاہیے تھا ۔۔۔
 

سلمان حمید

محفلین
اپنے جواں سال بیٹے کی لاش اٹھانا والدین کے لیے بے شک بہت دکھ کی بات ہے۔ اچھی تحریر داد قبول فرمائیے۔۔

یہاں شاید بابا منیر آنا چاہیے تھا ۔۔۔
داد کے لیے شکریہ اور واقعی، والدین کے لیے اس سے بڑھ کر دکھ کی بات کیا ہو گی بھلا۔
تدوین کر دی گئی ہے، نشاندہی کے لیے شکریہ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
کہا جاتا ہے وڑدز ورتھ نے شاعری میں عام دیہاتی زبان استعال کی تھی ۔اس کا مقصد ابلاغ تھا۔۔ بعض اوقات مصنف اردگرد سے ایسی تشبیہات دیتا ہے جو قاری کی فہم میں ہوتے ہیں مگر ان کے معانی دوسرے بھی ہوتے ہیں ۔ ڈھیلی چارپائی سے مراد اندر کے انسان کا ڈھیلا پن ہے جب اسے امید ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے کام رکے ہوئے ہوتے ہیں شکوہ نہیں کرتے ۔۔۔ یہاں مصنف کے قلم نے جادو جگایا ہے کہ آخری پیراگراف میں سبق دے گیا ہے کہ برے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔

طوفان کر رہا ہے میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی ے کشتی بھنور میں ہے ۔۔۔

ابلاغ میں دیہاتی زبان میں ایک آدھ جملہ شہری بھی لگا ۔۔۔ ایک اور بات انداز روایتی ہے جو کہ اچھا ہے ۔۔۔ جدیدیت کے افسانے بہت مشکل میں ڈال دیتے ہیں ۔۔۔انداز اشفاق احمد سے ملتا ہے ۔۔۔مجھے چوپال والا کچھ یاد دلائیں ÷÷÷ گاؤں کبھی نہیں دیکھا÷÷÷اس کے بارے میں سننے کا بہت دل کرتا ۔۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ماشااللہ
 

سلمان حمید

محفلین
کہا جاتا ہے وڑدز ورتھ نے شاعری میں عام دیہاتی زبان استعال کی تھی ۔اس کا مقصد ابلاغ تھا۔۔ بعض اوقات مصنف اردگرد سے ایسی تشبیہات دیتا ہے جو قاری کی فہم میں ہوتے ہیں مگر ان کے معانی دوسرے بھی ہوتے ہیں ۔ ڈھیلی چارپائی سے مراد اندر کے انسان کا ڈھیلا پن ہے جب اسے امید ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے کام رکے ہوئے ہوتے ہیں شکوہ نہیں کرتے ۔۔۔ یہاں مصنف کے قلم نے جادو جگایا ہے کہ آخری پیراگراف میں سبق دے گیا ہے کہ برے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔۔۔

طوفان کر رہا ہے میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی ے کشتی بھنور میں ہے ۔۔۔

ابلاغ میں دیہاتی زبان میں ایک آدھ جملہ شہری بھی لگا ۔۔۔ ایک اور بات انداز روایتی ہے جو کہ اچھا ہے ۔۔۔ جدیدیت کے افسانے بہت مشکل میں ڈال دیتے ہیں ۔۔۔انداز اشفاق احمد سے ملتا ہے ۔۔۔مجھے چوپال والا کچھ یاد دلائیں ÷÷÷ گاؤں کبھی نہیں دیکھا÷÷÷اس کے بارے میں سننے کا بہت دل کرتا ۔۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ماشااللہ

اتنا تفصیلی تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔ ابھی تو میں ایک ادنی سا طالبعلم ہوں جس کا مطالعہ صفر اور مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ :)
 
Top