محسن وقار علی
محفلین
انتخابات 2013
کچھ ہٹ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں، ہر طرف سیاسی بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کوئی محفل ، کوئی گفتگو الیکشن کی گہما گہمی سے خالی نہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے حق میں جہاں دلیلیں دی جا رہی ہیں وہیں، مخالف جماعتوں اور امیدواروں کے منفی پہلوئوں پر بھی خوب بحث ہو رہی ہے۔ پورے ملک کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح ہی ہے۔کچھ ہی دنوں میں ہونے والے انتخابات کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان مین مختلف جماعتوں کی جانب سے زور آزمائی ہو رہی ہے، وہیں اس مرتبہ کم و بیش ہر حلقے میں آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہاں فرداَ فرداَ ہر ایک امیدوار پر روشنی ڈالنا دامن تحریر سے باہر ہے البتہ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ہی بات کر لی جائے تو شاید تشنگی کم ہو سکے۔ تاہم، سیاسی جماعتوں کے علاوہ، ڈیرہ اسماعیل خان کے انتخابی حلقوں میں کچھ ایسے آزاد امیدوار بھی ہیں کہ جن کا ذکر، سیاسی لحاظ سے اہم ہی ہو گا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کو دو جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائِ اسلام کا گڑھ کہا جاتا ہے اور ماضی میں کبھی ہم کبھی تم کے نتائج کے ساتھ ان دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہ دونوں جماعتیں میدان میں ہیں۔ جمعیت علمائِ اسلام کی جانب سے حسب دستور جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بنفس نفیس میدان میں ہیں۔جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے گزشتہ انتخابات میں ایک بہت بڑے مارجن کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کو شکست دینے والے فیصل کریم خان کنڈی کو اس بار اپنی تمام تر توانائیاں ٹانک کے حلقہ NA25پر صر ف کرنے کی ہدایات مل چکی ہیںاور پیپلز پارٹی کا ٹکٹ، سنیٹر وقار احمد خان اچک چکے ہیں۔ملکی سیاست میں تیسری بڑی قوت سمجھی جانے والی تحریک انصاف نے بھی بالآخر اپنی ٹکٹوں کا اعلان کر دیا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ کی راہنمائی، مصطفی کنڈی کے حصے میں آچکی ہے۔ اسی طرح، تحریک انصاف ہی کی ٹکٹ کے متمنی، فقیر جمشید بھی اپنی سابقہ جماعت سے نالاں ہو کر سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے لئے مقابلے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اسی حلقے سے جماعت اسلامی نے زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ کو میدان میں اتار رکھا ہے تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون نے یہ ذمہ داری ریحان ملک ایڈووکیٹ کو دے دی ہے۔ سرائیکی پلیٹ فارم ہی سے خضر حیات ڈیال بھی قومی اسمبلی کے الیکشن کے مقابلے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں۔ان سیاسی شخصیات کے علاوہ بھی اس مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ شخصیات قومی اسمبلی کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہی ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کا قومی اسمبلی کا حلقہ، ماضی میں بھی کچھ حیران کن نتائج دے چکا ہے اور اس مرتبہ بھی حیران کن نتائج کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، بظاہر مقابلہ کچھ اس طرح سے متوازن لگ رہا ہے کہ ابھی ان امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کو شروع ہوئے کچھ اتنا عرصہ نہیں گزرا۔ اس سلسلے میں جہاں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات 2013کی تاریخ کا اعلان ، ان امیدواروں کے لئے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے کم وقت کی دستیابی کا باعث بنا، وہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرنے میں احتیاطوں سے بھرپور تاخیر بھی اس کا موجب بنی۔جسے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سالہا سال کی سیاسی تاریخ رکھنے والی جماعتیں، سوائے جماعت اسلامی کے، اس بات کو بروقت کرنے کے بھی قابل نہیں کہ وہ اپنے ہر ہر حلقے کے لئے امیدواروں کے انتخا ب کو بروقت یقینی بنا سکیں۔خاص طور پر اس مرتبہ جب صاف دکھائی دے رہا تھا کہ سابقہ اسمبلی اپنے مخصوص وقت پر اپنی عمر پوری کر رہی ہے اور اس مقررہ مدت کے بعد، آئین کی رو سے، ایک مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد بھی واضح ہے تو سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان جماعتوں نے آنے والے الیکشن کے لئے اپنے امیدواروں کے انتخاب کو حتمی شکل، پہلے ہی کیوں نہ دی؟ اس کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے اور وہ ثابت بھی ہو رہی ہے کہ کم و بیش ہر جماعت اس بات سے خائف رہی کہ اگر انتخابات سے مہینوں پہلے کسی مخصوص شخصیت کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دئے تو اسی جماعت میں موجود، پارٹی ٹکٹ کا کوئی دوسرا متمنی، لڑھک کر کسی دوسری جماعت میں جا سکتا ہے اور ظاہر ہے اس قسم کی شخصیات، کبھی اکیلے نہیں لڑھکا کرتیں، کارکنوں کا ایک ریلہ بھی اس ذقند میں ان کا ساتھی ہوا کرتا ہے۔اس سلسلے میں پہلی مثال پاکستان پیپلز پارٹی کی دی جا سکتی ہے کہ جہاں فیصل کنڈی ''رضامندی'' سے ٹانک دیس سدھار گئے، وہیں انکے ہم نوالہ ہم پیالہ کارکنان انکی ٹانک کی جانب سیاسی منتقلی کے باوجود، سنیٹر وقار کی اقتدا پر کم از کم دل سے راضی نہیں ہیں۔
تاہم، فیصل کریم خان کنڈی اپنے پانچ سالہ اقتدار میں اس قسم کے ہم نوالہ کارکنان اس تعداد میں نہیں بنا سکے کہ جو سنیٹر وقار کے لئے کسی قسم کے تفکر کا باعث بن سکیں۔ دوسرے، وقار احمدخان کا دربار ویسے بھی اس قدر تجلی رکھتا ہے کہ جو بھی ایک بار اس در پہ پہنچا تو ورد وقار ہی کا کرنے لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس فقرے کو کسی درباری لنگر سے جوڑنے کی کوشش کی جائے، تاہم راقم کی مراد ،سنیٹر وقار کی جانب سے خود کو ڈیرہ اسماعیل خان کا خیر خواہ قرار دینے کی خاطر پیش کی جانے والی وہ دلیلیں ہیں کہ جو واقعی ایک اثر رکھتی ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ باسی کہ جو واقعی ڈیرہ کی دھرتی کے لئے اپنے دل کے نہاں خانوں میں انس و محبت رکھتے ہیں، وہ وقار احمد خان کی دلیلوں کی بیعت پر مجبور ہو ئے جاتے ہیں۔خاص طور پر راقم کی جانب سے وقار احمد خان کا ٹیلی وژن کے لئے کیا جانے والا انٹرویو، اسی قسم کی حب الوطنی اور ڈیرہ اسماعیل خان کی محبت سے لبریز تھا اور انکے الفاظ واقعتاَ اپنے اندر اثر انگیزی رکھتے تھے۔ تاہم، الفاظ ہر سیاستدان کا وہ ہتھیار ہوتے ہیں کہ جو الیکشن سے قبل ایک جادوئی اثر رکھتے ہیں، لیکن، ہمارے ہاں یہ امر ایک بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد، اکثر سیاستدان الفاظ کھو بیٹھتے ہیں، تاثیر گم ہو جاتی ہے اور ڈیرہ کی مٹی سے انس و محبت کہیں سرد خانے کی نذر ہو کر، ان سیاستدانوں کو اسلام آباد اور پشاور کی خاک کا متوالہ بنا دیتی ہے۔بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی کے ساتھ تو یہ بھی المیہ چلا آتا رہا ہے کہ یہاں کی مٹی نے ''آیوں'' کو سونا بنایا اور ان ''آیوں'' نے اس مٹی کے ''جایوں'' سے منہ موڑتے ہوئے، اپنے زر میں اضافہ کرنے کی ہی کوشش کی۔خیر، جہاں تک وقار احمد خان کی ذات کا تعلق ہے، انکی ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے سنائی جانے والی منصوبہ بندی(جو کہ حقیقتاَ نہایت جامع منصوبہ بندی کہی جا سکتی ہے)سے اتفاق کرتے ہوئے ، انکی شخصیت کے حوالے سے چند تحفظات ضرور اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم، انکا مسلسل ڈیرہ اسماعیل خان سے دور رہنا، اور ایک طویل عرصہ سے خود کو آئندہ انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کے اعلان کے با وجود، ڈیرہ اسماعیل خان میں مہینوں مہینوں بعد ''دوروں'' پر آنا، ڈیرہ کی عوام کو مستقبل کے خدشات سے دوچار کر سکتا ہے۔ دوسرے، تجربہ یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے شاہانہ ٹھاٹ بات کی بدولت، لوگوں سے میل ملاپ کو اپنی طبیعت اور مرضی سے مشروط کئے رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کی میڈیا تک کے نمائندوں کو اپنی جانب سے دئے گئے اوقات کے برعکس، ایک طویل انتظار پر مجبور کرنا ایک عوامی نمائندہ کہلائی جانے والی شخصیت کے لئے عوام میں منفی تاثر کو ہوا دے سکتا ہے۔ تیسرے، گو کہ انکی جانب سے بطور ایک سنیٹر کے، ماضی میںڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے اقدامات کے دعوے بہت کئے جا رہے ہیں تاہم، ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کی موجودہ صورتحال، بشمول سنیٹر وقار احمد کے، کسی سیاسی شخصیت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کوئی بلند باگ دعویٰ کر سکے۔سنیٹر وقار اپنے فنڈز کی ایک خطیر رقم ، ڈیرہ اسماعیل خان کو تفویض کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہو، لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ وہ فراہم کردہ اپنے فنڈز کی چھان بین کریں تا کہ زمینی حقائق ان پر افشاہو سکیں۔بہرحال، ان تمام تر تحفظات کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ وہ اس بار ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں ایک مظبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی جانب سے ملنے والا ٹکٹ، وقار احمد خان کو مذید مظبوط کرنے کا باعث بن چکا ہے۔ دوسرے، انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے صوبائی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے امیدواروں اورمختلف علاقوں کی سرکردہ برادریوں کو جس طرح اپنا ہمنوا بنایا ہے، وہ مقابلے میں موجود دوسرے امیدواروں کے لئے تفکر کا باعث بن چکا ہے۔وقار احمد خان کے مقابلے میں ، ڈیرہ اسماعیل خان کے اقتدار کی پانچ مرتبہ وارث قرار دی جانے والی جمعیت علمائِ اسلام کے سربراہ ، مولانا فضل الرحمان سے ہے۔ مولانا فضل الرحمان ، ہر حال میں اس حلقہ سے ایک مضبوط امیدوار قرار دئے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انکی انتخابی مہم زور وشور سے جاری ہے۔ جمعیت علمائِ اسلام اور مولانا فضل الرحمان خود، ایک مخصوص ووٹ بنک رکھتے ہیں جبکہ اس مرتبہ ان کی جماعت کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی ماضی کی نسبت کہیں زوروں پر دکھائی سے رہا ہے۔ انکے والد مولانا مفتی محمود مرحوم اس حلقہ سے دو مرتبہ، جبکہ خود مولانا فضل الرحمان تین مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔انکی جانب سے بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں، تاہم ان پر بھی وہی جملہ صادق آتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع کے ساتھ ترقی کا لفظ لگانے کا دعویٰ کسی سیاستدان کے لئے مناسب نہیں ہے اور اسکی واضح دلیل ، ڈیرہ اسماعیل خان کی پسماندگی ہی ہے۔مولانا فضل الرحمان کی شخصیت کی علمی اور دینی صفات اپنی جگہ مصدقہ ضرور ہیں تاہم، انکی شخصیت کے بارے میں بھی کم و بیش وہی تحفظات سامنے لائے جا سکتے ہیں کہ جو وقار احمد خان کے بارے میں اوپر تحریر کئے جا چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان میل ملاقات میں نہایت ہنس مکھ اور ملنسار ضرور ہیں ، تاہم ان سے ملاقات بھی ایک مشکل امر ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ بلکہ صورتحال تو یہاں تک بھی دیکھی گئی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آس پاس موجود شخصیات بھی ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہی محسوس ہوتے ہیں۔جبکہ مولانا فضل الرحمان کا ٹھکانہ بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے زیادہ اسلام آباد ہی کی فضائوں میں پایا جاتا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں انکی آمد بھی ایک دورے ہی کی صورت اختیار کئے رکھتی ہے۔مولانا فضل الرحمان کے اسلوب میں بھی ایک سحر ضرور پایا جاتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے انکے الفاظ بھی کافی حد تک سننے والے کو روشن مستقبل کی نوید سناتے ہیں، تاہم، ماضی کے تین ادوار، مستقبل کی منصوبہ بندی سے میل نہیں کھاتے۔ دلیل وہی ایک، ڈیرہ اسماعیل خان کی پسماندگی ہی کافی ہے۔NA24سے اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بھی اپنا امیدوار زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ کی صورت میں مقابلے کے لئے پیش کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے دوسری جماعتوں کے برعکس، بہت پہلے سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر رکھا تھا، اس لئے زاہد محب اللہ کافی عرصہ سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔زاہد محب اللہ ، یا ان کی جماعت چونکہ کبھی، بلا شرکت غیرے، اقتدار میں نہیں رہی اس لئے ان کی سابقہ کارکردگی پر بحث ممکن نہیں، البتہ، جماعت اسلامی پر ایک آدھ اعتراض اس حد تک کیا جا سکتا ہے کہ وہ ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد، کہ جس پر، اصغر خان کیس کے فیصلے کے مطابق، ایجنسیوں سے پیسے لے کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کا الزام ثابت ہو چکا ہے، کا حصہ رہی، جبکہ متحدہ مجلس عمل کے حصہ کے طور پر جماعت اسلامی نے مشرف کا بھی ایک طویل ساتھ دیا۔
کچھ ہٹ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں، ہر طرف سیاسی بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کوئی محفل ، کوئی گفتگو الیکشن کی گہما گہمی سے خالی نہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ سیاسی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے حق میں جہاں دلیلیں دی جا رہی ہیں وہیں، مخالف جماعتوں اور امیدواروں کے منفی پہلوئوں پر بھی خوب بحث ہو رہی ہے۔ پورے ملک کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح ہی ہے۔کچھ ہی دنوں میں ہونے والے انتخابات کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان مین مختلف جماعتوں کی جانب سے زور آزمائی ہو رہی ہے، وہیں اس مرتبہ کم و بیش ہر حلقے میں آزاد امیدواروں کی بھی ایک بڑی تعداد دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہاں فرداَ فرداَ ہر ایک امیدوار پر روشنی ڈالنا دامن تحریر سے باہر ہے البتہ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ہی بات کر لی جائے تو شاید تشنگی کم ہو سکے۔ تاہم، سیاسی جماعتوں کے علاوہ، ڈیرہ اسماعیل خان کے انتخابی حلقوں میں کچھ ایسے آزاد امیدوار بھی ہیں کہ جن کا ذکر، سیاسی لحاظ سے اہم ہی ہو گا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کو دو جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائِ اسلام کا گڑھ کہا جاتا ہے اور ماضی میں کبھی ہم کبھی تم کے نتائج کے ساتھ ان دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہ دونوں جماعتیں میدان میں ہیں۔ جمعیت علمائِ اسلام کی جانب سے حسب دستور جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بنفس نفیس میدان میں ہیں۔جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے گزشتہ انتخابات میں ایک بہت بڑے مارجن کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کو شکست دینے والے فیصل کریم خان کنڈی کو اس بار اپنی تمام تر توانائیاں ٹانک کے حلقہ NA25پر صر ف کرنے کی ہدایات مل چکی ہیںاور پیپلز پارٹی کا ٹکٹ، سنیٹر وقار احمد خان اچک چکے ہیں۔ملکی سیاست میں تیسری بڑی قوت سمجھی جانے والی تحریک انصاف نے بھی بالآخر اپنی ٹکٹوں کا اعلان کر دیا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ کی راہنمائی، مصطفی کنڈی کے حصے میں آچکی ہے۔ اسی طرح، تحریک انصاف ہی کی ٹکٹ کے متمنی، فقیر جمشید بھی اپنی سابقہ جماعت سے نالاں ہو کر سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کے لئے مقابلے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اسی حلقے سے جماعت اسلامی نے زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ کو میدان میں اتار رکھا ہے تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون نے یہ ذمہ داری ریحان ملک ایڈووکیٹ کو دے دی ہے۔ سرائیکی پلیٹ فارم ہی سے خضر حیات ڈیال بھی قومی اسمبلی کے الیکشن کے مقابلے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں۔ان سیاسی شخصیات کے علاوہ بھی اس مرتبہ ڈیرہ اسماعیل خان میں کچھ شخصیات قومی اسمبلی کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لے رہی ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کا قومی اسمبلی کا حلقہ، ماضی میں بھی کچھ حیران کن نتائج دے چکا ہے اور اس مرتبہ بھی حیران کن نتائج کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، بظاہر مقابلہ کچھ اس طرح سے متوازن لگ رہا ہے کہ ابھی ان امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کو شروع ہوئے کچھ اتنا عرصہ نہیں گزرا۔ اس سلسلے میں جہاں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات 2013کی تاریخ کا اعلان ، ان امیدواروں کے لئے اپنی انتخابی مہم چلانے کے لئے کم وقت کی دستیابی کا باعث بنا، وہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے امیدواروں کو ٹکٹیں جاری کرنے میں احتیاطوں سے بھرپور تاخیر بھی اس کا موجب بنی۔جسے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سالہا سال کی سیاسی تاریخ رکھنے والی جماعتیں، سوائے جماعت اسلامی کے، اس بات کو بروقت کرنے کے بھی قابل نہیں کہ وہ اپنے ہر ہر حلقے کے لئے امیدواروں کے انتخا ب کو بروقت یقینی بنا سکیں۔خاص طور پر اس مرتبہ جب صاف دکھائی دے رہا تھا کہ سابقہ اسمبلی اپنے مخصوص وقت پر اپنی عمر پوری کر رہی ہے اور اس مقررہ مدت کے بعد، آئین کی رو سے، ایک مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد بھی واضح ہے تو سمجھ سے بالا تر ہے کہ ان جماعتوں نے آنے والے الیکشن کے لئے اپنے امیدواروں کے انتخاب کو حتمی شکل، پہلے ہی کیوں نہ دی؟ اس کی ایک ہی وجہ سامنے آتی ہے اور وہ ثابت بھی ہو رہی ہے کہ کم و بیش ہر جماعت اس بات سے خائف رہی کہ اگر انتخابات سے مہینوں پہلے کسی مخصوص شخصیت کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دئے تو اسی جماعت میں موجود، پارٹی ٹکٹ کا کوئی دوسرا متمنی، لڑھک کر کسی دوسری جماعت میں جا سکتا ہے اور ظاہر ہے اس قسم کی شخصیات، کبھی اکیلے نہیں لڑھکا کرتیں، کارکنوں کا ایک ریلہ بھی اس ذقند میں ان کا ساتھی ہوا کرتا ہے۔اس سلسلے میں پہلی مثال پاکستان پیپلز پارٹی کی دی جا سکتی ہے کہ جہاں فیصل کنڈی ''رضامندی'' سے ٹانک دیس سدھار گئے، وہیں انکے ہم نوالہ ہم پیالہ کارکنان انکی ٹانک کی جانب سیاسی منتقلی کے باوجود، سنیٹر وقار کی اقتدا پر کم از کم دل سے راضی نہیں ہیں۔
تاہم، فیصل کریم خان کنڈی اپنے پانچ سالہ اقتدار میں اس قسم کے ہم نوالہ کارکنان اس تعداد میں نہیں بنا سکے کہ جو سنیٹر وقار کے لئے کسی قسم کے تفکر کا باعث بن سکیں۔ دوسرے، وقار احمدخان کا دربار ویسے بھی اس قدر تجلی رکھتا ہے کہ جو بھی ایک بار اس در پہ پہنچا تو ورد وقار ہی کا کرنے لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس فقرے کو کسی درباری لنگر سے جوڑنے کی کوشش کی جائے، تاہم راقم کی مراد ،سنیٹر وقار کی جانب سے خود کو ڈیرہ اسماعیل خان کا خیر خواہ قرار دینے کی خاطر پیش کی جانے والی وہ دلیلیں ہیں کہ جو واقعی ایک اثر رکھتی ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے وہ باسی کہ جو واقعی ڈیرہ کی دھرتی کے لئے اپنے دل کے نہاں خانوں میں انس و محبت رکھتے ہیں، وہ وقار احمد خان کی دلیلوں کی بیعت پر مجبور ہو ئے جاتے ہیں۔خاص طور پر راقم کی جانب سے وقار احمد خان کا ٹیلی وژن کے لئے کیا جانے والا انٹرویو، اسی قسم کی حب الوطنی اور ڈیرہ اسماعیل خان کی محبت سے لبریز تھا اور انکے الفاظ واقعتاَ اپنے اندر اثر انگیزی رکھتے تھے۔ تاہم، الفاظ ہر سیاستدان کا وہ ہتھیار ہوتے ہیں کہ جو الیکشن سے قبل ایک جادوئی اثر رکھتے ہیں، لیکن، ہمارے ہاں یہ امر ایک بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد، اکثر سیاستدان الفاظ کھو بیٹھتے ہیں، تاثیر گم ہو جاتی ہے اور ڈیرہ کی مٹی سے انس و محبت کہیں سرد خانے کی نذر ہو کر، ان سیاستدانوں کو اسلام آباد اور پشاور کی خاک کا متوالہ بنا دیتی ہے۔بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی مٹی کے ساتھ تو یہ بھی المیہ چلا آتا رہا ہے کہ یہاں کی مٹی نے ''آیوں'' کو سونا بنایا اور ان ''آیوں'' نے اس مٹی کے ''جایوں'' سے منہ موڑتے ہوئے، اپنے زر میں اضافہ کرنے کی ہی کوشش کی۔خیر، جہاں تک وقار احمد خان کی ذات کا تعلق ہے، انکی ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے سنائی جانے والی منصوبہ بندی(جو کہ حقیقتاَ نہایت جامع منصوبہ بندی کہی جا سکتی ہے)سے اتفاق کرتے ہوئے ، انکی شخصیت کے حوالے سے چند تحفظات ضرور اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم، انکا مسلسل ڈیرہ اسماعیل خان سے دور رہنا، اور ایک طویل عرصہ سے خود کو آئندہ انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنے کے اعلان کے با وجود، ڈیرہ اسماعیل خان میں مہینوں مہینوں بعد ''دوروں'' پر آنا، ڈیرہ کی عوام کو مستقبل کے خدشات سے دوچار کر سکتا ہے۔ دوسرے، تجربہ یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے شاہانہ ٹھاٹ بات کی بدولت، لوگوں سے میل ملاپ کو اپنی طبیعت اور مرضی سے مشروط کئے رکھتے ہیں ۔ یہاں تک کی میڈیا تک کے نمائندوں کو اپنی جانب سے دئے گئے اوقات کے برعکس، ایک طویل انتظار پر مجبور کرنا ایک عوامی نمائندہ کہلائی جانے والی شخصیت کے لئے عوام میں منفی تاثر کو ہوا دے سکتا ہے۔ تیسرے، گو کہ انکی جانب سے بطور ایک سنیٹر کے، ماضی میںڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے اقدامات کے دعوے بہت کئے جا رہے ہیں تاہم، ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کی موجودہ صورتحال، بشمول سنیٹر وقار احمد کے، کسی سیاسی شخصیت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ کوئی بلند باگ دعویٰ کر سکے۔سنیٹر وقار اپنے فنڈز کی ایک خطیر رقم ، ڈیرہ اسماعیل خان کو تفویض کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہو سکتا ہے ان کا دعویٰ حقیقت پر مبنی ہو، لیکن اس کے لئے لازم ہے کہ وہ فراہم کردہ اپنے فنڈز کی چھان بین کریں تا کہ زمینی حقائق ان پر افشاہو سکیں۔بہرحال، ان تمام تر تحفظات کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ وہ اس بار ڈیرہ اسماعیل خان کے قومی اسمبلی کے حلقہ میں ایک مظبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی کی جانب سے ملنے والا ٹکٹ، وقار احمد خان کو مذید مظبوط کرنے کا باعث بن چکا ہے۔ دوسرے، انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے صوبائی اسمبلی کے مختلف حلقوں کے امیدواروں اورمختلف علاقوں کی سرکردہ برادریوں کو جس طرح اپنا ہمنوا بنایا ہے، وہ مقابلے میں موجود دوسرے امیدواروں کے لئے تفکر کا باعث بن چکا ہے۔وقار احمد خان کے مقابلے میں ، ڈیرہ اسماعیل خان کے اقتدار کی پانچ مرتبہ وارث قرار دی جانے والی جمعیت علمائِ اسلام کے سربراہ ، مولانا فضل الرحمان سے ہے۔ مولانا فضل الرحمان ، ہر حال میں اس حلقہ سے ایک مضبوط امیدوار قرار دئے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی انکی انتخابی مہم زور وشور سے جاری ہے۔ جمعیت علمائِ اسلام اور مولانا فضل الرحمان خود، ایک مخصوص ووٹ بنک رکھتے ہیں جبکہ اس مرتبہ ان کی جماعت کی جانب سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی ماضی کی نسبت کہیں زوروں پر دکھائی سے رہا ہے۔ انکے والد مولانا مفتی محمود مرحوم اس حلقہ سے دو مرتبہ، جبکہ خود مولانا فضل الرحمان تین مرتبہ منتخب ہو چکے ہیں۔انکی جانب سے بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی کے لئے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں، تاہم ان پر بھی وہی جملہ صادق آتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلع کے ساتھ ترقی کا لفظ لگانے کا دعویٰ کسی سیاستدان کے لئے مناسب نہیں ہے اور اسکی واضح دلیل ، ڈیرہ اسماعیل خان کی پسماندگی ہی ہے۔مولانا فضل الرحمان کی شخصیت کی علمی اور دینی صفات اپنی جگہ مصدقہ ضرور ہیں تاہم، انکی شخصیت کے بارے میں بھی کم و بیش وہی تحفظات سامنے لائے جا سکتے ہیں کہ جو وقار احمد خان کے بارے میں اوپر تحریر کئے جا چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان میل ملاقات میں نہایت ہنس مکھ اور ملنسار ضرور ہیں ، تاہم ان سے ملاقات بھی ایک مشکل امر ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ بلکہ صورتحال تو یہاں تک بھی دیکھی گئی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے آس پاس موجود شخصیات بھی ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہی محسوس ہوتے ہیں۔جبکہ مولانا فضل الرحمان کا ٹھکانہ بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے زیادہ اسلام آباد ہی کی فضائوں میں پایا جاتا ہے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں انکی آمد بھی ایک دورے ہی کی صورت اختیار کئے رکھتی ہے۔مولانا فضل الرحمان کے اسلوب میں بھی ایک سحر ضرور پایا جاتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے انکے الفاظ بھی کافی حد تک سننے والے کو روشن مستقبل کی نوید سناتے ہیں، تاہم، ماضی کے تین ادوار، مستقبل کی منصوبہ بندی سے میل نہیں کھاتے۔ دلیل وہی ایک، ڈیرہ اسماعیل خان کی پسماندگی ہی کافی ہے۔NA24سے اس مرتبہ جماعت اسلامی نے بھی اپنا امیدوار زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ کی صورت میں مقابلے کے لئے پیش کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نے دوسری جماعتوں کے برعکس، بہت پہلے سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر رکھا تھا، اس لئے زاہد محب اللہ کافی عرصہ سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔زاہد محب اللہ ، یا ان کی جماعت چونکہ کبھی، بلا شرکت غیرے، اقتدار میں نہیں رہی اس لئے ان کی سابقہ کارکردگی پر بحث ممکن نہیں، البتہ، جماعت اسلامی پر ایک آدھ اعتراض اس حد تک کیا جا سکتا ہے کہ وہ ماضی میں اسلامی جمہوری اتحاد، کہ جس پر، اصغر خان کیس کے فیصلے کے مطابق، ایجنسیوں سے پیسے لے کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کا الزام ثابت ہو چکا ہے، کا حصہ رہی، جبکہ متحدہ مجلس عمل کے حصہ کے طور پر جماعت اسلامی نے مشرف کا بھی ایک طویل ساتھ دیا۔
جماعت اسلامی کے بارے میں بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جماعت کا پاکستان کے کم وبیش ہر حلقے میں ووٹ بنک موجود ہے، تاہم، اسکی تعداد کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کی صورت میں کسی مجوزہ امیدوار کو نمایاں فائدہ پہنچا سکتی ہے، تاہم، پاکستان میں ایسے بہت کم انتخابی حلقے ہیں کہ جہاں جماعت اسلامی اپنے امیدوار کو انفرادی طور پر جتوا سکے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی اس جماعت کا ایک مناسب ووٹ بنک موجود ہے۔ تاہم، جماعت اسلامی کے امیدوار کے طور پر سامنے آنے والے زاہد محب اللہ، ذاتی طور پر ایک بڑا حلقہ احباب رکھتے ہیں۔ خاص طور پر انکی جانب سے رفاح عامہ کے کاموں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام سے انکے رابطوں اور خاص طور پر عوام کے دکھ درد میں پیش پیش ہو کر شرکت کی وجہ سے انکے حلقہ احباب میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انکی انتخابی مہم، ہمارے ہاں کی روائتی انتخابی مہم کے برعکس، عوام میں شعور بیدار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انکی جانب سے جلسے جلوسوں، ریلیوں سے زیادہ کارنر میٹنگوں اور سنجیدہ نشستوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ زاہد محب اللہ بھی اپنے طرز کلام میں کافی حد اثر انگیزی رکھتے ہیں تاہم، انکے اس متاثر کن خیالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ وہ اپنے الفاظ کو سنجیدہ نشستوں کے ساتھ ساتھ، جلسوں میں ہونے والی تقاریر کی طرف موڑیں۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زاہد محب اللہ کا مقابلہ، کسی ایک بڑی جماعت، کسی ایک بڑی شخصیت سے نہیں، بلکہ آئندہ انتخابات میں بہت بڑے بڑے سیاسی سورما میدان میں موجود ہیں اور ان سورمائوں کی جانب سے استعمال کئے جانے والے سیاسی دائو پیچ، زاہد محب اللہ ایڈووکیٹ کی تما مثبت دلیلوں پر غالب اس طرح آ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ووٹرز کی ترجیحات، مستقبل سے زیادہ، ماضی کی شخصی چکاچوند اور حال کے مفاد ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی کے اسی حلقہ NA24سے تحریک انصاف نے مصطفی کنڈی کو میدان میں اتارا ہے۔ مصطفی کنڈی ، ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، انکے والد امان اللہ خان کنڈی، جنہیں مقامی عوام منو خان کے نام سے جانتی ہے، ایک طویل سیاسی تاریخ رکھتے ہیں اور بنیادی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمدردیاں رکھتے رہے ہیں۔ مصطفی کنڈی کے بڑے بھائی، تحریک انصاف ہی کی ٹکٹ پر ٹانک کے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں اور وہ بھی ایک طویل سیاسی جدوجہد کے حامل قرار دئے جاتے ہیں۔تحریک انصاف کی اگر بات کی جائے تو اس جماعت نے جہاں پورے پاکستان میں مقبولیت حاصل کی ، وہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی عمران خان کی شخصیت کا جادو، اور انکی جانب سے روائتی سیاستدانوں کے خلاف لگائے جانے والے نعرے کی بنیاد پر تبدیلی کے نعرے نے یہاں کی عوام کو کافی حد تک متاثر کیا۔خاص طور پر نوجوانوں میں اس جماعت کی مقبولیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔تاہم، ڈیرہ اسماعیل خان میں اس جماعت میں دھڑے بندیاں ، ڈیرہ کی سطح پر اس جماعت کو موجودہ حالات سے کہیں زیادہ منظم اور فعال کرنے میں رکاوٹ بنی رہیں۔اس سلسلے میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا رویہ، لاپرواہی کی حد تک حیران کن رہا اور ایک طویل عرصے تک ڈیرہ اسماعیل خان میں تحریک انصاف کے ایک سے زائد دفاتر قائم رہے اور یہ سب دفاتر ہی خود کو تحریک انصاف کا حقیقی دفتر گردانتے رہے۔ دوسرے، یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پچھلے کئی برسوں کے دوران، تحریک انصاف کے چیئرمین تو کجا، اس جماعت کا کوئی سرکردہ راہنما بھی ڈیرہ اسماعیل خان کو اس قدر اہمیت دینے سے قاصر رہا کہ وہ اس شہر کا دورہ کر سکے۔بلکہ حد تو یہ بھی دیکھی گئی کہ دریاخان میں تحریک انصاف کا جلسہ ہو یا کہ وزیرستان امن مارچ کا موقع، عمران خان ڈیرہ اسماعیل خان کے باہر باہر سے ہی گزرتے ہوئے اس شہر سے کنارہ کش نظر آئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اکثریتی عوام ، اقتدار میں رہنے والی کم و بیش تمام جماعتوں سے انکی ناقص ناکردگی کی بنیاد پر نالاں ہیں۔نیز، میڈیا کی آزادی اور اس کے نتیجے میں عوام کو حاصل ہونے والے سیاسی شعور نے بھی عوام کو اپنی سیاسی منزلوں کے تعین میں آسانی پیدا کر دی ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اس تمام تر صورتحال کا فائدہ، تحریک انصاف اور اسکے چیئرمین عمران خان ہی نے سب سے زیادہ اٹھا یا اور یہی وجہ تھی کہ ڈیڑھ دہائی سے تگ سیاسی تگ و دو میں مصروف عمران خان، گزشتہ دو سالوں میں مقبول ترین لیڈر وں میں شمار ہونے لگے۔خاص طور پر وہ طبقہ کہ جو الیکشن میں کسی بھی جماعت اور کسی بھی سیاسی لیڈر کو اپنی رائے کے مطابق اس ملک کی فلاح و بہبود کے قابل نہ سمجھتے ہوئے ووٹ ڈالنے سے گریزاں رہا ہے، وہ عمران خان سے متاثر ہو کر، تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے پر راضی ہو رہا تھا۔ اسی قسم کی صورتحال ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن، مندرجہ بالا دونوں مواقع پر عمران خان کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان سے پہلو تہی، اور اس کے بعد ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے تحریک انصاف کا گراف ڈیرہ اسماعیل خان میں کافی کم ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ اسکی واضح دلیل اس وقت سامنے آئی کہ جب گزشتہ دنوں عمران خان کے جلسہ میں مقامی افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر نظر آئی۔ گو کہ تحریک انصاف کے کارکنان اور راہنما اس موقع پر جلسہ گاہ کے بھر جانے کو ایک کامیاب جلسہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، تاہم، عمران خان کی مختصر تقریر ہی اس معاملے میں گواہی دے رہی تھی کہ انہوں نے جلسہ گاہ میں مقامی آبادی کی اقلیتی شمولیت کو بھانپ لیا تھا۔اب اگر تحریک انصاف کے حلقہ NA24کے امیدوار مصطفی کنڈی کی بات کی جائے تو انکی عمر کو دیکھتے ہوئے ایمان لانا پڑتا ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں کو آگے لانے کا وعدہ ضرور پورا کیا ہے۔ تاہم، مصطفی کنڈی کی شخصیت اور انکے رکھ رکھائو میں وہ پختگی اور وہ زیرک پن ابھی دیکھنے میں نہیں آ رہا کہ جو ایک قومی اسمبلی کے امیدوار میں موجود ہونا لازمی ہوتا ہے اور جو خود ان کے والد اور انکے بڑے بھائی داور کنڈی میں بدرجہ اتم محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ان سے کی گئی ایک ملاقات میں محسوس ہوا کہ گو کہ انکی گفتار میں وہ تمام باتیں موجود ہیں کہ جو نا صرف انکی جماعت کے چیئرمین عمران خان اپنی ہر تقریر اور ہر ٹاک شو میں دوہراتے نظر آتے ہیں، لیکن، طرز کلام ابھی بہت کچھ توجہ کا طالب ہے۔ خاص طور پرسٹیج میں خطابت ان انتخابات میں ایک موثر ہتھیار کے طور پر سامنے آرہا ہے جس پر مصطفی کنڈی کو محنت کی اشد ضرورت ہے۔
نیز، انکے پیش رو، فیصل کریم کنڈی کے سابقہ دور میں ڈیرہ اسماعیل خان کی ترقی میں انکے منفی کردار کی بدولت، عوا م میں کنڈی خاندان سے ناراضگی بھی مصطفی کنڈی کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اب جبکہ انتخابات میں کچھ ہی روز باقی ہیں، مصطفی کنڈی اپنی ان کمزوریوں پر کیسے قابو پاتے ہیں۔ دوسری صورت میں انہیں اسی ووٹ پر اکتفا کرنا پڑے گا جو عمران خان کی شخصیت یا مقابلے میں موجود دیگر جماعتوں کے خلاف عوام میں پائے جانے والے بغض کی مرہون منت پاکستان تحریک انصاف کو پڑ سکتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون کی اگر بات کی جائے تو اس جماعت کی کہانی بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں اختلافات سے بھری نظر آتی ہے۔گو کہ اہل نظر کا خیال ہے کہ ملک میں آئندہ حکومت ، میاں نوز شریف ہی کی باری لگاتے ہوئے بننے کے واضح امکانات ہیں، لیکن ڈیرہ اسماعیل خان میں آئندہ انتخابات میں قومہ اسمبلی کی سطح پر نون لیگ کی کوئی حوصلہ افزا تصویر بنتی نظر نہیں آتی۔ گو کہ NA24پر مقابلہ کے لئے نون لیگ نے ریحان ملک ایڈووکیٹ کی صورت میں ایک پڑھا لکھا اور بالغ نظر امیدوار ضرور اتارا ہے، تاہم اول تو ڈیرہ اسماعیل خان میں نون لیگ کی مقبولیت اس قدر نہیں کہ جو ہمیں ملکی سطح پر نظر آتی ہے، دوسرے ، نون لیگ کے مقامی راہنمائوں اور کارکنان کی باہمی کھینچا تانی، ریحان ایڈووکیٹ کے لئے مسائل ہی پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن، ریحان ایڈووکیٹ کو سب سے بڑا چیلنج جو درپیش ہے وہ خود انہی کی پارٹی کے ٹکٹ سے ڈیرہ اسماعیل خان کی صوبائی نشستوں پر الیکشن لڑنے والے وہ امیدواران ہیں کہ جو اپنی تمام تر حمایت، تعاون اور ہمدردیاں، سنیٹر وقار احمد خان کی جھولی میں ڈال چکے ہیں۔جہاں تک سرائیکی پارٹیوں کی بات کی جائے تو جہاں ان جماعتوں میں عام حالات میں باہمی کھینچا تانی دیکھی جا رہی تھی، وہیں انتخابات کے موقع پر بھی کچھ ایسی ہی صورتحال سامنے آ چکی ہے کہ جہاں ایک طرف شاہد عطا کھیارہ خود کو سرائیکی راہنما قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں وہیں خضر حیات ڈیال بھی سرائیکی پلیٹ فارم ہی کو استعمال کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی مسند کے خواہاں ہیں۔ جبکہ فقیر جمشید بھی سرائیکی ٹکٹ حاصل کر چکنے کے بعد اپنی انتخابی مہم اب اسی سرائیکی نعرے کی بنیاد پر چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔اس صورتحال میں ان امیدواروں کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہے۔ تاہم، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ ہونے والے انتخابات، ملکی تاریخ میں ماضی میں ہونے والے تمام انتخا بات سے یکسر مختلف کچھ اسطرح ہونگے کہ ایک تو پورے ملک کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان سے بھی کم و بیش نصف کے قرین جعلی ووٹوں کا خاتمہ کرتے ہوئے، مختلف شخصیات اور مختلف جماعتوں کے ووٹ بنک میں نصف ہی کے قریب کمی واقع ہو چکی ہے، دوسرے، نئے رجسٹرڈ ہونے والے کم و بیش ڈھائی لاکھ سے بھی اوپر ووٹرز نوجوان طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا، کہا یہ جا سکتا ہے کہ یہ انتخابات مکمل طور پر نوجوانوں کی صوابدید پر ہی ہیں۔ نوجوانوں نے ان انتخابات میں جس شخصیت یا جس جماعت پر بھی ہاتھ رکھ دیا، اقتدار کا ہما بھی اسی سر پر آشیانہ بنانے کو ترجیح دے گا۔(ختم شد)
تحریر:عنایت عادل
ربط