فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
Secretary Tillerson's Statement on Attack at Kabul Intercontinental Hotel | U.S. Embassy in Afghanistan
افغانستان – عام شہری ايک بار پھر نشانہ – دہشت گردوں کی بزدلی عياں
افغانستان کے شہر کابل ميں نہتے شہريوں پر ايک اور دانستہ حملہ جس کا واحد مقصد زيادہ سے زيادہ بے گناہوں کو ہلاک کرنا تھا۔ حملے ميں 22 شہری ہلاک ہوئے۔ دہشت گردوں نے چودہ گھنٹے تک شہريوں کو يرغمال بنائے رکھا جس دوران درجنوں شہری شديد زخمی بھی ہوئے۔
قريب 150 شہريوں کو محفوظ مقام تک پہنچايا گيا جن ميں 41 غير ملکی شہری بھی شامل تھے۔
ہلاک ہونے والوں ميں امريکی شہريوں کے علاوہ، يوکرائن کے چھ شہری، وينزيليا کے دو کپتان، کازگستان کا ايک شہری اور ايک شہری جرمنی کا بھی شامل تھا۔
سال 2011 ميں بھی اسی ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے ميں 21 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان نے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، باوجود اس کے کہ ان کی جانب سے بارہا يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ وہ نہتے شہريوں پر حملے نہيں کرتے ہيں۔
بچوں سميت مقامی افغان شہريوں کی تصاوير ديکھنے کے باوجود کوئ بھی اس دليل پر کيسے قائل ہو سکتا ہے کہ طالبان کے حملے ميں شہريوں کو نشانہ نہيں بنايا گیا تھا۔
طالبان کی جانب سے يہ لغو دعوی کہ وہ صرف عسکری عمارات کو نشانہ بناتے ہيں اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ اس حملے کے بعد درجنوں عام شہری ہلاک ہوئے اور سينکڑوں زخمی ہوئے۔
حملے کی سنگينی اور بے شمار ہلاکتوں سے واضح ہے کہ حملے کا مقصد کسی مخصوص عسکری مقام يا چند افراد کو ٹارگٹ کرنا نہيں بلکہ دانستہ زيادہ سے زيادہ عام شہريوں کو ہلاک کرنا تھا تا کہ دہشت اور بربريت پر مبنی اپنی مہم کو وسعت دی جا سکے۔
مسلح طالبان تواتر کے ساتھ يہ دعوی کرتے ہيں کہ وہ کسی بھی طور عام افغان شہريوں کو محفوظ کرنے کی سعی کر رہے ہيں۔ يہ دليل اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ ايک عشرے سے زائد عرصے پر محيط ان کے مظالم اور طريقہ کار سے واضح ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہی ہے کہ خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور عوامی مقامات، عمارات اور اہم شہری اثاثوں کی بربادی جيسی کاروائيوں کو بطور جنگی حکمت عملی کے استعمال کيا جائے۔
يہ بات حيران کن ہے کہ بعض رائے دہندگان ابھی تک سرحد کے دونوں جانب طالبان اور دہشت گردوں کی کاروائيوں اور ان کے مجموعی رويے کے حوالے سے تذبذب اور ابہام کا شکار ہيں اور اس پر بحث کرتے رہتے ہيں۔ بدقسمتی سے يہ دہشت گرد اپنے طرزعمل کے ضمن ميں ايسے کسی مخمصے کا شکار نہيں ہيں۔ يہ اپنی مخصوص سوچ اور نظريے پر کامل اور پختہ يقین رکھتے ہیں۔ يہ اپنے آپريشنز کی تکميل ميں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہيں کرتے اور بے گناہ انسانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے ميں انھيں کوئ پيشمانی نہيں ہے۔
جو رائے دہندگان دہشت گرد کے ہر واقعے کے بعد بال کی کھال اتارنے لگتے ہيں اور محض بحث در بحث کو بنياد بنا کر دہشت گردوں کی کاروائيوں کے حوالے سے شکوک اور شبہے کا اظہار کرتے ہیں انھيں چاہيے کہ وہ مجموعی صورت حال اور زمين پر موجود حقائق کا جائزہ لیں اور اس حقیقت کا ادراک کريں کہ بے گناہ شہريوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت ان کے لائحہ عمل کا حصہ نہيں ہے۔ اس کے برعکس وہ انسانی جانوں کے ضياع کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہيں تا کہ ان تصاوير کے ذريعے اپنی خونی سوچ کا پرچار کريں اور اپنی صفوں ميں مزيد افراد کو شامل کريں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
Secretary Tillerson's Statement on Attack at Kabul Intercontinental Hotel | U.S. Embassy in Afghanistan
افغانستان – عام شہری ايک بار پھر نشانہ – دہشت گردوں کی بزدلی عياں
افغانستان کے شہر کابل ميں نہتے شہريوں پر ايک اور دانستہ حملہ جس کا واحد مقصد زيادہ سے زيادہ بے گناہوں کو ہلاک کرنا تھا۔ حملے ميں 22 شہری ہلاک ہوئے۔ دہشت گردوں نے چودہ گھنٹے تک شہريوں کو يرغمال بنائے رکھا جس دوران درجنوں شہری شديد زخمی بھی ہوئے۔
قريب 150 شہريوں کو محفوظ مقام تک پہنچايا گيا جن ميں 41 غير ملکی شہری بھی شامل تھے۔
ہلاک ہونے والوں ميں امريکی شہريوں کے علاوہ، يوکرائن کے چھ شہری، وينزيليا کے دو کپتان، کازگستان کا ايک شہری اور ايک شہری جرمنی کا بھی شامل تھا۔
سال 2011 ميں بھی اسی ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنايا گيا جس کے نتيجے ميں 21 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان نے انتہائ ڈھٹائ کے ساتھ اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے، باوجود اس کے کہ ان کی جانب سے بارہا يہ دعوی کيا جاتا ہے کہ وہ نہتے شہريوں پر حملے نہيں کرتے ہيں۔
بچوں سميت مقامی افغان شہريوں کی تصاوير ديکھنے کے باوجود کوئ بھی اس دليل پر کيسے قائل ہو سکتا ہے کہ طالبان کے حملے ميں شہريوں کو نشانہ نہيں بنايا گیا تھا۔
طالبان کی جانب سے يہ لغو دعوی کہ وہ صرف عسکری عمارات کو نشانہ بناتے ہيں اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ اس حملے کے بعد درجنوں عام شہری ہلاک ہوئے اور سينکڑوں زخمی ہوئے۔
حملے کی سنگينی اور بے شمار ہلاکتوں سے واضح ہے کہ حملے کا مقصد کسی مخصوص عسکری مقام يا چند افراد کو ٹارگٹ کرنا نہيں بلکہ دانستہ زيادہ سے زيادہ عام شہريوں کو ہلاک کرنا تھا تا کہ دہشت اور بربريت پر مبنی اپنی مہم کو وسعت دی جا سکے۔
مسلح طالبان تواتر کے ساتھ يہ دعوی کرتے ہيں کہ وہ کسی بھی طور عام افغان شہريوں کو محفوظ کرنے کی سعی کر رہے ہيں۔ يہ دليل اس ليے بھی ناقابل فہم ہے کيونکہ ايک عشرے سے زائد عرصے پر محيط ان کے مظالم اور طريقہ کار سے واضح ہے کہ ان کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہی ہے کہ خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور عوامی مقامات، عمارات اور اہم شہری اثاثوں کی بربادی جيسی کاروائيوں کو بطور جنگی حکمت عملی کے استعمال کيا جائے۔
يہ بات حيران کن ہے کہ بعض رائے دہندگان ابھی تک سرحد کے دونوں جانب طالبان اور دہشت گردوں کی کاروائيوں اور ان کے مجموعی رويے کے حوالے سے تذبذب اور ابہام کا شکار ہيں اور اس پر بحث کرتے رہتے ہيں۔ بدقسمتی سے يہ دہشت گرد اپنے طرزعمل کے ضمن ميں ايسے کسی مخمصے کا شکار نہيں ہيں۔ يہ اپنی مخصوص سوچ اور نظريے پر کامل اور پختہ يقین رکھتے ہیں۔ يہ اپنے آپريشنز کی تکميل ميں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہيں کرتے اور بے گناہ انسانوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی مہم کو جاری رکھنے ميں انھيں کوئ پيشمانی نہيں ہے۔
جو رائے دہندگان دہشت گرد کے ہر واقعے کے بعد بال کی کھال اتارنے لگتے ہيں اور محض بحث در بحث کو بنياد بنا کر دہشت گردوں کی کاروائيوں کے حوالے سے شکوک اور شبہے کا اظہار کرتے ہیں انھيں چاہيے کہ وہ مجموعی صورت حال اور زمين پر موجود حقائق کا جائزہ لیں اور اس حقیقت کا ادراک کريں کہ بے گناہ شہريوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت ان کے لائحہ عمل کا حصہ نہيں ہے۔ اس کے برعکس وہ انسانی جانوں کے ضياع کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہيں تا کہ ان تصاوير کے ذريعے اپنی خونی سوچ کا پرچار کريں اور اپنی صفوں ميں مزيد افراد کو شامل کريں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ