اسد قریشی
محفلین
کاسے میں زندگی کے چَونّی پڑی ہے عمر
شوقِ وصالِ یار میں گُزری بڑی ہے عمر
جس کو سنبھالا میں نے کسی کانچ کی طرح
کوہِ گَراں کے جیسے مجھ پر کڑی ہے عمر
ہر لمحہ اپنے آپ سے لڑتا رہا ہوں میں
لشکر سے تیری یاد کے تنہا لڑی ہے عمر
ہر لحظہ ٹھوکروں میں رکھا وقت نے مجھے
سینے میں اک صلیب کی جیسے گڑی ہے عمر
نازک ہے ٹوٹ جائے کبھی بھی یہ سلسلہ
سانسوں کی ڈور ہے کہ غموں کی لڑی ہے عمر