کاشف عباسی اور حسین حقانی پاک امریکہ تعلقات پر

مہوش علی

لائبریرین
[میری رائے میں] حسین حقانی نے بہت صحیح طرح سے واضح کیا کہ پاکستان کے مسائل کیا ہیں اور جذبات میں آ کر کسی غلط قدم اٹھانے کی گنجائش کیوں نہیں۔

http://affairspk.com/2008/06/19/off-the-record-18-june-2008/

میڈیا کے کردار پر بھی حسین حقانی نے کاشف عباسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

یقینا بہت سے اراکین کو حسین حقانی کی باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے اور یہ انکا حق ہے۔ بہرحال، میں اس مسئلہ میں حسین حقانی کی باتوں سے متفق ہوں۔
 
حسین حقانی کی اس گفتگو سے اور کسی کو اختلاف ہو یا نہ ہو شاید خود حسین حقانی اس سے اختلافی موقف کے حامی رہے ہیں اس گفتگو میں کاشف کی طرف سے بار بار جس چیز کو حقانی نے رد کیا وہ Prideکا لفظ تھا جبکہ ایک زمانے میں حقانی خود USAکو کچھ یہ مشورہ دے چکے ہیں
The American Mongols

By Husain Haqqani

Publisher: Carnegie

Foreign Policy , May/June 2003

The United States must avoid any impulse to act as an imperial power, dictating its superior ways to “less civilized” peoples. It should be prepared to accept Islamic pride and Arab nationalism as factors in the region's politics, instead of backing narrowly based elites to do its bidding. Patient engagement, rather than the flaunting of military and financial power, should characterize this new phase of U.S. intervention in the heart of the Islamic world.

If U.S. President George W. Bush's promises of democracy in Iraq and a Palestinian state are not kept and if the United States fails to demand reforms in countries ruled by authoritarian allies, the umma (community of believers) would have new reasons to distrust and hate. The dream of helping Muslims overcome their fear of modernity will then remain unfulfilled. And the world will continue to confront new jihads
اور جب امریکا نے ان کا مشورہ نہ ماننا تو اب وہ یہ کہ رہے ہیں مٹی پاو prideپر ہمارا ان کا قد یکساں نہیں ہے اور پھر تم کر ہی کیا سکتے ہو اگر وہ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے تم پر حملہ آور ہوں نہ تم اقوام متحدہ جاسکتے ہو نہ ہی امریکی جنگ سے علیحیدہ ہو سکتے کیوں کہ تم نے اتنی اتنی ایڈ بھی ان سے لی ہوئی ہے بہر حال اب وہ امریکا میں پاکستانی سفیر ہیں اور ایک امریکی یونیورسٹی میں ملازم بھی ویسے ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ اس انٹرویو میں حقانی نے کاشف کہ ساتھ بالکل وہی رویہ اختیار کیا ہے جو امریکا نے پاکستان کے ساتھ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حسین حقانی کی اس گفتگو سے اور کسی کو اختلاف ہو یا نہ ہو شاید خود حسین حقانی اس سے اختلافی موقف کے حامی رہے ہیں اس گفتگو میں کاشف کی طرف سے بار بار جس چیز کو حقانی نے رد کیا وہ Prideکا لفظ تھا جبکہ ایک زمانے میں حقانی خود USAکو کچھ یہ مشورہ دے چکے ہیں
The American Mongols

By Husain Haqqani

Publisher: Carnegie

Foreign Policy , May/June 2003

The United States must avoid any impulse to act as an imperial power, dictating its superior ways to “less civilized” peoples. It should be prepared to accept Islamic pride and Arab nationalism as factors in the region's politics, instead of backing narrowly based elites to do its bidding. Patient engagement, rather than the flaunting of military and financial power, should characterize this new phase of U.S. intervention in the heart of the Islamic world.

If U.S. President George W. Bush's promises of democracy in Iraq and a Palestinian state are not kept and if the United States fails to demand reforms in countries ruled by authoritarian allies, the umma (community of believers) would have new reasons to distrust and hate. The dream of helping Muslims overcome their fear of modernity will then remain unfulfilled. And the world will continue to confront new jihads
اور جب امریکا نے ان کا مشورہ نہ ماننا تو اب وہ یہ کہ رہے ہیں مٹی پاو prideپر ہمارا ان کا قد یکساں نہیں ہے اور پھر تم کر ہی کیا سکتے ہو اگر وہ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے تم پر حملہ آور ہوں نہ تم اقوام متحدہ جاسکتے ہو نہ ہی امریکی جنگ سے علیحیدہ ہو سکتے کیوں کہ تم نے اتنی اتنی ایڈ بھی ان سے لی ہوئی ہے بہر حال اب وہ امریکا میں پاکستانی سفیر ہیں اور ایک امریکی یونیورسٹی میں ملازم بھی ویسے ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے کہ اس انٹرویو میں حقانی نے کاشف کہ ساتھ بالکل وہی رویہ اختیار کیا ہے جو امریکا نے پاکستان کے ساتھ۔


حقانی صاحب کی بات اس معاملے میں بالکل صحیح ہے۔ ایک طرف وہ امریکہ کو متنبہ کر رہے ہیں کہ پرائڈ کے نام پر وہ غصہ میں آ کر حملے نہ کرے بلکہ حالات کو پہلے جنگ ٹال کر کسی طرح حل کرنے کی کوشش کرے، اور دوسری طرف کاشف عباسی جیسے لوگوں کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ پاکستانی پرائڈ کے نام پر عوام کے جذبات کو بھڑکانا بند کرے اور پاکستان کو جنگ کے طرف نہ دھکیلے کیونکہ جنگ کے آک میں بہت کچھ جلتا ہے اور اس مِیں سراسر پاکستان کا نقصان ہے، اور یہ کہ جب طالبان پاکستان سے آ کر ناٹو پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت پاک فوج نے انہیں نہیں روکا، اور جب وہ حملے کر کے واپس پاکستان کی Save Heaven میں جا کر چھپ رہے تھے تو پھر پاک افواج نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو ایسی کیسز کو جب اقوام متحدہ یا دنیا کے کسی ملک کے سامنے رکھیں گے تو اس میں پاکستان کی اپنی جگ ہنسائی اور رسوائی ہے۔

اسی پرائڈ کے نام پر ہم 1971 میں فوج کشی کرنے کے باوجود اپنا آدھا ملک گنوا چکے ہیں [جبکہ اُس وقت تو ہمارا موقف بھی بہت مضبوط تھا]، اسی پرائڈ کے نام پر افغانستان کے طالبان کو پہاڑوں میں اپنی جانیں بچاتے ہوئے فرار ہوتے دیکھا گیا۔ لیکں کیا ہم نے اس سے کچھ سیکھا؟

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان طالبان دہشت گردوں کی وجہ سے ناٹو پر جوابی حملہ کر دینا چاہیے تھا تو وہ بہت غلطی میں ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرے خیال میں تو حقانی صاحب کو امریکہ کی طرف سے پاکستان میں سفیر مقرر کردینا چاہیے کیونکہ جس کمال خوبصورتی سے انھوں امریکی حق سفارت ادا کیا ہے اتنا تو شاید کوئی بھی امریکی خود بھی نہ ادا کرسکے
 
[میری رائے میں] حسین حقانی نے بہت صحیح طرح سے واضح کیا کہ پاکستان کے مسائل کیا ہیں اور جذبات میں آ کر کسی غلط قدم اٹھانے کی گنجائش کیوں نہیں۔

http://affairspk.com/2008/06/19/off-the-record-18-june-2008/

میڈیا کے کردار پر بھی حسین حقانی نے کاشف عباسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔


میں نے کسی وقت دو شعر (مشرف بہ اغیار)‌ کے نام سے انکل مشرف کے نعرے (سب سے پہلے ‌پاکستان) کے بارے میں لکھے تھے:
ملاحظہ ہوں:

ایک کوشش ہے بس ناک اونچی رہے
دین چھوڑو زمیں پاک اونچی رہے


بیچ ڈالی ہے جب عزتِ نفس ہی
اور ایماں تو کیا خاک اونچی رہے

مشرف زرداری اور حسین حقانی جیسے میر بہت ہیں۔
خدا انہیں ہدایت دے نہیں تو ہمیں ان سے چھٹکارا ملے
 
Top