اسد
محفلین
اس سال جون میں شمالی علاقہ جات سے کاغان کے راستے واپس آیا تھا۔ اس سفر کی چند تصاویر۔
شمالی علاقہ جات جانے کا عام راستہ تو شاہراہِ قراقرم ہے اور میں اسی راستے سے گیا تھا۔ لیکن وسط جون میں، سڑی ہوئی گرمی پڑ رہی تھی۔ واپسی میں میری ہمت نہیں ہوئی کہ پورا دن گرمی میں جھلستا رہوں، اس لئے واپسی کا دوسرا راستہ اپنایا۔ یہ راستہ چلاس سے براستہ درۂ بابوسراور کاغان، مانسہرہ آتا ہے اور ناراں سے تقریباً 40 کلومیٹر پہلے تک کچا ہے۔ لیکن سردیوں میں یہ راستہ برف کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔ اس راستے پر جون سے اگست یا وسط ستمبر تک سفر کیا جا سکتا ہے۔ یہ راستہ اس کے بعد بھی وسط اکتوبر یا نومبر تک کھلا ہوتا ہے، لیکن کچھ محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔ کیونکہ یہاں مستقل آبادی نہیں ہے اور ستمبر میں یہاں آئے ہوئے لوگ اپنے جانور لے کر نشیبی علاقوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔
اب اس راستے پر پکی سڑک بنائی جا رہی ہے۔ دیکھیں سردیوں میں سڑک سے برف ہٹانے کا کیا بندوبست ہوتا ہے۔
21 جون، 2008۔
درہ بابوسر سے گتی داس کا منظر۔
گتی داس۔
گتی داس، چراگاہ میں چرتے ہوئے جانور۔
شمالی علاقہ جات جانے کا عام راستہ تو شاہراہِ قراقرم ہے اور میں اسی راستے سے گیا تھا۔ لیکن وسط جون میں، سڑی ہوئی گرمی پڑ رہی تھی۔ واپسی میں میری ہمت نہیں ہوئی کہ پورا دن گرمی میں جھلستا رہوں، اس لئے واپسی کا دوسرا راستہ اپنایا۔ یہ راستہ چلاس سے براستہ درۂ بابوسراور کاغان، مانسہرہ آتا ہے اور ناراں سے تقریباً 40 کلومیٹر پہلے تک کچا ہے۔ لیکن سردیوں میں یہ راستہ برف کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔ اس راستے پر جون سے اگست یا وسط ستمبر تک سفر کیا جا سکتا ہے۔ یہ راستہ اس کے بعد بھی وسط اکتوبر یا نومبر تک کھلا ہوتا ہے، لیکن کچھ محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔ کیونکہ یہاں مستقل آبادی نہیں ہے اور ستمبر میں یہاں آئے ہوئے لوگ اپنے جانور لے کر نشیبی علاقوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔
اب اس راستے پر پکی سڑک بنائی جا رہی ہے۔ دیکھیں سردیوں میں سڑک سے برف ہٹانے کا کیا بندوبست ہوتا ہے۔
21 جون، 2008۔
درہ بابوسر سے گتی داس کا منظر۔
گتی داس۔
گتی داس، چراگاہ میں چرتے ہوئے جانور۔