محسن وقار علی
محفلین
عربوں نے دنیا کو کئی مفکر اور بہت سی ایجادات دیں، جن میں تین کورس کھانا، الکوحل اور کافی شامل ہیں۔
آج بھی کافی کے سب سے اعلیٰ دانوں کو ’عریبیکا‘ کہا جاتا ہے۔ کافی کا یہ سفر صدیوں پہلے مسلم صوفیوں سے شروع ہوا تھا، جو آج مغربی دنیا کے فیشن ایبل کافی ہاؤسز تک پہنچ گیا ہے۔
کافی لاطینی امریکہ، زیرِصحارا افریقہ، ویت نام اور انڈونیشیا جیسے گرم خطوں میں پیدا ہوتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کافی امریکہ کی پیداوار ہے کیوں کہ چاکلیٹ اور تمباکو کی طرح کافی بھی یورپ میں 16ویں اور 17ویں صدی میں مقبول ہوئی تھی۔آج کافی کے چین سٹور ہر ایئرپورٹ پر پائے جاتے ہیں اور انھیں نیس کیفے کی طرح عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کی علامات سمجھا جاتا ہے۔
دراصل کافی بحیرۂ احمر کے جنوبی ملکوں یمن اور ایتھوپیا سے آئی ہے۔
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ایتھوپیا کے ایک چرواہے نے سب سے پہلے کافی کے جنگلی پودوں سے کافی کشید کر کے پی تھی، لیکن دنیا میں سب سے پہلے کافی یمن میں اگائی گئی۔ یمنیوں ہی نے اسے عربی نام ’قہوہ‘ دیا، جو بعد میں بگڑ کر انگریزی میں کافی اور فرانسیسی میں کیفے بن گیا۔
لفظ قہوہ کا اصل مطلب شراب تھا، اور صوفی درویش اسے ذکرِالٰہی کرتے وقت توجہ مرکوز رکھنے اور روحانی سرور حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
1414 تک کافی مکہ پہنچی، اور 16ویں صدی کی ابتدا میں یمن کی بندرگاہ المخا سے ہو کر مصر تک پھیل گئی۔ (المخا انگریزی میں جا کر mocha بن گیا۔)
اس وقت بھی کافی صوفیوں کا مشروب تھا۔ قاہرہ میں جامعہ الاظہر کے اردگرد کئی کافی خانے کھل گئے۔ اس کے بعد کافی شامی شہر حلب میں داخل ہوئی اور وہاں سے کچھ ہی عرصے بعد 1554 میں وسیع و عریض عثمانی سلطنت کے دارالخلافہ قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) میں مقبول ہو گئی۔
مکہ، قاہرہ اور استنبول میں مذہبی حکام نے کافی پر پابندی لگانے کے کوشش کی۔ علما نے اس بات پر بحث شروع کر دی کہ آیا کافی کے اثرات الکوحل کی طرح نشہ آور ہیں یا نہیں۔ بعض شیوخ نے کہا کہ کافی خانوں میں کافی کی بھری ہوئی صراحی شراب کے ساغر کی طرح محفل میں گردش کرتی ہے۔
اس تصویر میں کافی کے تاجر دکھائے گئے ہیں جو کافی لے کر بندرگاہ تک جا رہے ہیں
کافی خانے ایک نیا ادارہ تھے جن میں لوگ مل بیٹھتے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے تھے، شعرا سے ان کا تازہ کلام سنتے تھے اور شطرنج کھیلتے تھے۔ جلد ہی کافی خانے علمی زندگی کا محور بن گئے اور انھیں اس معاملے میں مسجد کا حریف سمجھا جانے لگا۔
بعض علما نے فتویٰ جاری کر دیا کہ کافی شراب سے بھی بدتر ہے، اور حکام کو تشویش لاحق ہو گئی کہ کافی خانوں میں حکومت کے خلاف بغاوت کی سازشیں تیار کی جا سکتی ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ عثمانی سلطان مراد چہارم کے دور (40-1623) میں کافی پینے کی سزا موت مقرر کر دی گئی لیکن اس کے باوجود کافی پینے کی عادت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔
رفتہ رفتہ مذہبی رہنما بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ کافی پینا جائز ہے۔
کافی دو راستوں سے یورپ پہنچی۔ ایک عثمانی سلطنت سے اور دوسرے یمن کی بندرگاہ المخا سے۔ برطانوی اور ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنیوں نے 17ویں صدی کی ابتدا میں المخا سے بڑے پیمانے پر کافی خریدنا شروع کر دی۔
دوسری طرف کافی کی تجارت بحیرۂ روم سے بھی شروع ہو گئی۔ جب ترک فوجوں نے یورپ پر چڑھائی تو وہ اپنے ساتھ کافی بھی لے گئے۔ یورپ میں بھی مشرقِ وسطیٰ کی طرح کافی خانے گپ شپ اور کھیل کے مرکز بن گئے۔ لفظ ’کیفے‘ نہ صرف مشروب بلکہ کافی خانے کو بھی کہا جانے لگا۔
مشرق کی طرح یورپ میں بھی حکام نے کافی خانوں کو شک کی نظر سے دیکھا۔ 1675 میں برطانیہ کے بادشاہ چارلز ثانی نے یہ کہہ کر کافی خانوں کی مذمت کی کہ’یہ منحرف لوگوں کے مل بیٹھنے کی جگہیں ہیں جہاں سے بادشاہ اور اس کے وزیروں کے خلاف شرانگیز افواہیں پھیلتی ہیں۔‘
غذائی ایجادات
- عربوں نے تین کورس کھانے کا تصور ایجاد کیا، جس کے تحت سب سے پہلے یخنی پی جاتی ہے، پھر مچھلی یا گوشت دیا جاتا ہے اور آخر میں پھل۔ یہ عادت نویں صدی میں مسلم سپین سے یورپ تک پہنچی
- الکوحل کو سب سے پہلے عرب سائنس دان جابر بن حیان نے سنہ 800 کے لگ بھگ کشید کیا۔ الکوحل عربی زبان کا لفظ ہے۔
جب 1683 میں ترک ویانا کا محاصرہ ختم کر کے پسپا ہو گئے تو پیچھے کافی کا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے جسے ویانا کے باسیوں نے فوراً قبضے میں لے لیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ویانا میں آج بھی کافی ترکی انداز میں پی جاتی ہے۔
تاہم عرب دنیا میں کافی مختلف انداز میں پی جاتی ہے۔ عربوں کی کافی خاصی تلخ ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں الائچی اور دوسرے مسالہ جات شامل کیے جاتے ہیں۔
عرب خطے میں رواج ہے کہ مہمان کی آمد کے کچھ دیر بعد اسے کافی پیش کی جاتی ہے۔ اگر فوراً ہی کافی دی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ میزبان کو بہت جلدی ہے۔
البتہ افسوس کی یہ بات ہے کہ یمن میں کافی کی پیداوار میں کمی آ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو دوسرے ممالک کی سستی کافی ہے اور دوسرے یہ کہ خود یمن میں کافی کو قط جیسے نشہ آور مشروبات سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
2011 میں یمن نے صرف ڈھائی ہزار ٹن کافی برآمد کی۔ اس کے علاوہ دوسرے عرب ممالک میں سے کوئی بھی دنیا میں کافی پیدا کرنے والے دس بڑے ملکوں میں شامل نہیں ہے۔
البتہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کافی کے آبائی وطن یمن میں کافی کی پیداوار کا احیا کیا جائے۔
مصنف:جان میک ہیوگو
ربط