کاشفی
محفلین
کافی ہاؤس
حبیب جالبؔ
کافی ہاؤس میں دن بھر بیٹھے، کچھ دُبلے پتلے نقّاد
بحث یہی کرتے رہتے ہیں، سُست ادب کی ہے رفتار
صرف ادب کے غم میں غلطاں، چلنے پھرنے سے لاچار
چہروں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے برسوں کے بیمار
اُردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر، میرؔ و غالبؔ، آدھا جوشؔ
یا اِک آدھ کسی کا مصرعہ، یا اقبالؔ کے چند اشعار
یا پھر نظم ہے ایک چوہے پر حامدؔ مدنی کا شہکار
کوئی نہیں ہے اچھا شاعر، کوئی نہیں افسانہ نگار
منٹوؔ، کرشنؔ، ندیمؔ اور بیدیؔ، ان میں جان تو ہے لیکن
عیب یہ ہے ان کے ہاتھوں میں کُند زباں کی ہے تلوار
عالیؔ، افسرؔ، انشاؔ بابو، ناصرؔ میرؔ کے برخوردار
فیضؔ نے جو اب تک لکھا ہے، کیا لکھا ہے، سب بیکار
اُن کو ادب کی صحّت کا غم، مجھ کو اُن کی صحّت کا
یہ بیچارے دکھ کے مارے، جینے سے ہیں کیوں بیزار
حُسن سے وحشت، عشق سے نفرت، اپنی ہی صورت سے پیار
خندہِ گُل پر ایک تبسّم، گریہِ شبنم سے انکار
حبیب جالبؔ
کافی ہاؤس میں دن بھر بیٹھے، کچھ دُبلے پتلے نقّاد
بحث یہی کرتے رہتے ہیں، سُست ادب کی ہے رفتار
صرف ادب کے غم میں غلطاں، چلنے پھرنے سے لاچار
چہروں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے برسوں کے بیمار
اُردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر، میرؔ و غالبؔ، آدھا جوشؔ
یا اِک آدھ کسی کا مصرعہ، یا اقبالؔ کے چند اشعار
یا پھر نظم ہے ایک چوہے پر حامدؔ مدنی کا شہکار
کوئی نہیں ہے اچھا شاعر، کوئی نہیں افسانہ نگار
منٹوؔ، کرشنؔ، ندیمؔ اور بیدیؔ، ان میں جان تو ہے لیکن
عیب یہ ہے ان کے ہاتھوں میں کُند زباں کی ہے تلوار
عالیؔ، افسرؔ، انشاؔ بابو، ناصرؔ میرؔ کے برخوردار
فیضؔ نے جو اب تک لکھا ہے، کیا لکھا ہے، سب بیکار
اُن کو ادب کی صحّت کا غم، مجھ کو اُن کی صحّت کا
یہ بیچارے دکھ کے مارے، جینے سے ہیں کیوں بیزار
حُسن سے وحشت، عشق سے نفرت، اپنی ہی صورت سے پیار
خندہِ گُل پر ایک تبسّم، گریہِ شبنم سے انکار
بشکریہ: کمال ابدالی