ام اویس
محفلین
ایتھوپیا میں رہنے والا خالد نت نئے قہوے بنانے اور ان کے اثرات جانچنے کا شوقین تھا ۔ وہ بھیڑ بکریاں چراتا اور اپنی بھیڑوں کو چرانے کے لیے گھاس پھونس کے میدان ڈھونڈتا رہتا ۔ اسی دوران وہ اپنے شوق کی تسکین کے لیے مختلف جڑی بوٹیوں سے قہوہ تیار کرتا اور ان کے اچھے برے اثرات کھوجتا رہتا ۔ ایک بار وہ انہیں ایسے خطے میں لے گیا جہاں کافی کے پودے تھے اس نے دیکھا کہ اس کی بھیڑیں کافی کے بیج بہت شوق سے کھاتی ہیں ۔ وہاں ہر طرف کافی کے پودے لگے تھے ۔ خالد نے ان پودوں کے بیج اکٹھے کیے اور انہیں گھر لے آیا ۔ جب ان بیجوں سے اس نے قہوہ تیار کیا تو اس کی خوشبو اور ذائقے نے اسے مسحور کردیا ۔ اس نے محسوس کیا کہ بعض بیجوں کے مقابلے میں کافی کے بیجوں کا قہوہ طبیعت سے سستی کو دور کردیتا ہے ۔ انسان ہشاش بشاش ہوجاتا ہے ۔ ان کی عجیب سی کڑوڑاہٹ مزاج کی تلخی کو مٹا دیتی ہے ۔ دماغ کے ساتھ جسم میں بھی چستی پیدا ہوجاتی ہے ۔ خالد کو کافی کے بیجوں سے تیار کردہ قہوہ بہت پسند آیا ۔ اس کے دوست احباب اس کی اس عادت سے واقف تھے چنانچہ اس نے اپنے دوستوں کو بھی کافی کے بیجوں سے تیار کردہ قہوہ پلایا ۔
لندن کے وسیع وعریض ویسٹ فیلڈ شاپنگ مال میں مسلسل چار گھنٹے پھرنے کے بعد جب میں نے کافی کی فرمائش کی تو میری نظر مال کے درمیان میں بنی کافی شاپ پر جمی تھی جہاں ایک طرف دنیا بھر سے آئے ہوئے ملک ملک کے شاپنگ سے تھکے ماندے لوگوں کی ایک لمبی قطار کافی پینے کی منتظر تھی ۔ دوسری طرف ساتھ رکھے سٹولز پر بیٹھے گورے ، کالے ، ایشین ، یورپین اور انڈین و پاکستانی کافی کے گھونٹ بھرتے نئے سرے سے مال کا چکر لگانے کی قوت حاصل کر رہے تھے ۔
سچ ہے کافی لاٹے ہو ، کیپاچینو یا اسپریسو ہو ، ہوتی تو کافی ہی ہے جو جسم کی ساری تھکن لمحوں میں بھگا دیتی ہے ۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد کافی کے کپ تک رسائی ہوئی جس کا گھونٹ بھرتے ہی مجھے خالد چرواہے کی کہانی یاد آگئی ۔
دیکھا جائے تو کافی ایک مغربی مشروب کے طور پر مشہور ہے حالانکہ خالص مشرقی ذوق کی آئینہ دار ہے ۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے پروفیسر سلیم الحسنی کہتے ہیں کافی اسلام کے ابتدائی دور کی ایجاد ہے ۔ یمن میں کافی کے بیجوں سے مختلف قہوے تیار کیے جاتے تھے ۔ خالد خود یمن میں وہ بیج لایا یا اس کے صوفی منش نگر نگر گھومنے والے اس کے دوستوں میں سے کوئی اپنے ساتھ یہ سوغات لے کر آیا البتہ پندرہویں صدی کے اختتام تک یہ مشروب مکہ اور ترکی سے ہوتا ہوا 1645 میں یورپی شہر وینس میں پہنچ گیا ۔
سنا ہے لندن میں پہلے کافی ہاﺅس کی بنیاد بھی ایک تُرک نے رکھی تھی ۔ سچ ہے یہاں ہفتے کے پانچ دن پورے ہوش وحواس سے مشینی انداز میں کام کرنے کے لیے کافی جیسے زندہ مشروب کی سخت ضرورت ہے جو انسانی بدن میں اسی طرح قوت اور طاقت بھردیتا ہے جیسے مشین میں پیٹرول یا ڈیزل ۔
پھر مجھے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک تحریر یاد آگئی ۔ جسے پڑھنے کے بعد کچھ دن تک میرا کافی پینے کو دل نہیں چاہا لیکن پھر خود اپنے آپ پر اور لکھنے والے پر ہنسی آگئی اور میں دیر تک ہنستی رہی ۔
کسی نے لکھا تھا کہ بازار میں کافی رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانوروں کے فضلہ سے حاصل ہونے والی کافی مہنگے داموں میں فروخت ہوتی ہے ۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس جانور کو بھوکا رکھا جاتا ہے اور جب اس کی بھوک اپنے پورے شباب پر پہنچ جاتی ہے تو اسے کافی کے باغ میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ چن چن کر کافی کے پھل کھاتا ہے اور پھر اسے ہضم کرنے کے بعد فضلے کی شکل میں باہر نکالتا ہے ۔ کمپنیاں اسے اکٹھا کرکے اور اس کی پرا سیسنگ کرکے بازار میں مہنگے داموں بیچتی ہیں.
اب الله جانے یہ کافی رنگ کا جانور کون سا ہے کیونکہ میں نے دیکھا اکثر کافی گرائنڈر بھی اسی رنگ کے ہوتے ہیں ۔
خیرکافی پیواور مزے کرو ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا یہ پردے کی بات ہے سو پردے میں رہنے دو
لندن کے وسیع وعریض ویسٹ فیلڈ شاپنگ مال میں مسلسل چار گھنٹے پھرنے کے بعد جب میں نے کافی کی فرمائش کی تو میری نظر مال کے درمیان میں بنی کافی شاپ پر جمی تھی جہاں ایک طرف دنیا بھر سے آئے ہوئے ملک ملک کے شاپنگ سے تھکے ماندے لوگوں کی ایک لمبی قطار کافی پینے کی منتظر تھی ۔ دوسری طرف ساتھ رکھے سٹولز پر بیٹھے گورے ، کالے ، ایشین ، یورپین اور انڈین و پاکستانی کافی کے گھونٹ بھرتے نئے سرے سے مال کا چکر لگانے کی قوت حاصل کر رہے تھے ۔
سچ ہے کافی لاٹے ہو ، کیپاچینو یا اسپریسو ہو ، ہوتی تو کافی ہی ہے جو جسم کی ساری تھکن لمحوں میں بھگا دیتی ہے ۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد کافی کے کپ تک رسائی ہوئی جس کا گھونٹ بھرتے ہی مجھے خالد چرواہے کی کہانی یاد آگئی ۔
دیکھا جائے تو کافی ایک مغربی مشروب کے طور پر مشہور ہے حالانکہ خالص مشرقی ذوق کی آئینہ دار ہے ۔ یونیورسٹی آف مانچسٹر کے پروفیسر سلیم الحسنی کہتے ہیں کافی اسلام کے ابتدائی دور کی ایجاد ہے ۔ یمن میں کافی کے بیجوں سے مختلف قہوے تیار کیے جاتے تھے ۔ خالد خود یمن میں وہ بیج لایا یا اس کے صوفی منش نگر نگر گھومنے والے اس کے دوستوں میں سے کوئی اپنے ساتھ یہ سوغات لے کر آیا البتہ پندرہویں صدی کے اختتام تک یہ مشروب مکہ اور ترکی سے ہوتا ہوا 1645 میں یورپی شہر وینس میں پہنچ گیا ۔
سنا ہے لندن میں پہلے کافی ہاﺅس کی بنیاد بھی ایک تُرک نے رکھی تھی ۔ سچ ہے یہاں ہفتے کے پانچ دن پورے ہوش وحواس سے مشینی انداز میں کام کرنے کے لیے کافی جیسے زندہ مشروب کی سخت ضرورت ہے جو انسانی بدن میں اسی طرح قوت اور طاقت بھردیتا ہے جیسے مشین میں پیٹرول یا ڈیزل ۔
پھر مجھے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک تحریر یاد آگئی ۔ جسے پڑھنے کے بعد کچھ دن تک میرا کافی پینے کو دل نہیں چاہا لیکن پھر خود اپنے آپ پر اور لکھنے والے پر ہنسی آگئی اور میں دیر تک ہنستی رہی ۔
کسی نے لکھا تھا کہ بازار میں کافی رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانوروں کے فضلہ سے حاصل ہونے والی کافی مہنگے داموں میں فروخت ہوتی ہے ۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس جانور کو بھوکا رکھا جاتا ہے اور جب اس کی بھوک اپنے پورے شباب پر پہنچ جاتی ہے تو اسے کافی کے باغ میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں وہ چن چن کر کافی کے پھل کھاتا ہے اور پھر اسے ہضم کرنے کے بعد فضلے کی شکل میں باہر نکالتا ہے ۔ کمپنیاں اسے اکٹھا کرکے اور اس کی پرا سیسنگ کرکے بازار میں مہنگے داموں بیچتی ہیں.
اب الله جانے یہ کافی رنگ کا جانور کون سا ہے کیونکہ میں نے دیکھا اکثر کافی گرائنڈر بھی اسی رنگ کے ہوتے ہیں ۔
خیرکافی پیواور مزے کرو ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا یہ پردے کی بات ہے سو پردے میں رہنے دو