کالی پٹی

احمد علی

محفلین
اُس نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تختہِ دار کی طرف دیکھا اور دھیرے دھیرے سے سیڑھیاں چڑھنے لگا ،گزرے ہوئے سارے لمحے کسی فلم کی صورت اُس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔ وہ بیس ،بائیس سال کاخُوب رو نوجوان تھا،دراز قد ،چھریرا بدن،کُشادہ چھاتی،چہرے پہ خشخشی داڑھی نے اُسکی شخصیت کو مزید نکھار دیا تھا۔چند ماہ قبل ہی اُس نے کیمیکلز بنانے والے فیکٹری میں بزنس مینیجر کی نوکری اختیا ر کی تھی،پچھلا مینیجر فیکٹری میں ہونے والے ناگہانی واقعہ جس میں سینکڑوں مزدور جان کی بازی ہار چُکے تھے، کے بعد نوکری چھوڑ گیا تھا۔
انور خُداداد صلاحیتوں کا مالک تھا ۔رات گئے تک وہ دفتر میں کام کرتارہتا تھا،اس رات بھی وہ اپنے کام میں مصروف تھا صبح اک بہت بڑا کنٹریکٹ سائن ہونے والا تھا وہ جلدی جلدی کام ختم کر نے کی کوشش کر رہا تھا کہ اک ضروری فائل لینے کے لئےوہ سی ای او کےکمرے میں گیا۔۔۔۔ الماری کھولی اور مطلوبہ فائل ڈھونڈنے لگاکہ اچانک اس کی نظر ایک فائل پرپڑی اور اسکے ہاتھ بے اختیار فائل کی جانب بڑھے ،جیسے ہی اس نے فائل کا مطالعہ شروع کیا تو اُسکے ذہن میں جھماکہ سا ہوا
"تو کیا یہ سب جان بُوجھ کر کیا گیا؟"
وہ منہ ہی منہ میں بُڑبڑایا
"اوہ میرے خُدا !!!!!!!!!!!!!!!"
فائل اُٹھا کر باہر نکلا ،فائل گاڑی میں رکھی اور گاڑی گیٹ سے باہر نکالی، چوکیداراسکے چہرے پہ اُڑتی ہوائیاں دیکھ کرمتزبزب ہوا۔
گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی،گاڑی کا رُخ اُسکے پُرانے دوست امجد کے گھر کی طرف تھا۔
"ارے یار کیا بات کر رہے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"
امجد انتہائی حیرانگی میں گویاہوا۔۔
" تُم صرف اس فائل کو اپنے پاس رکھو میں صُبح اُسکے بارے میں سُوچیں گے "
انور نے فیصلہ کُن انداز میں کہا اور اس سے اجازت لے کر گھر کی جانب روانہ ہوا۔
گاڑی گیراج میں کھڑی کر کے وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا اور بستر پر ڈھیر ہو گیا،رات اختتام کے قریب تھی مگر نیند اُسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی، اُسے اپنی چہار جانب آگ کے شعلے بُلند ہوتےدکھائی دئیے،آگ میں لپٹے ہوئےلوگوں کی آہ وبکااور چیخ و پُکارا اسے اپنی سماعتوں میں گُونجتی محسُوس ہو رہی تھی،وہ سوچ رہا تھا کہ انسان اتنا بے حِس کیسے ہو سکتا ہے، سینکڑوں انسانوں کی جان اتنی سستی ؟؟؟؟؟
یہ سوچ کر ہی اسے انسان کے وجود سے گھن آ نےلگی تھی۔
" کیا دولت کی کالی پٹی انسان کو اس قدر اندھا کر سکتی ہے؟؟؟؟؟ کیا اشرف المخلوقات اس درجہ تک بھی گِر سکتی ہے؟؟؟؟؟؟"
" صرف انشورنس کے چند روپوں کے لئے اتنی جانوں کی بلی؟؟؟؟؟ اتنے خاندانوں کی قُربانی؟؟؟؟؟؟؟ کیا خُون اتنا سستا ہے؟؟؟؟؟"
اس طرح کے سینکڑوں سوال اُسکے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
فجر کی اذان اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی، وُہ بےاختیار اُٹھا اور وضو کر کے مسجدجانے کےلئے جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو اچانک چونک گیا
"You are under arrest Mr. Anwer. "
" مگر !!!!!!!!! کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ مطلب ؟؟؟؟؟؟؟؟"
وہ گھبرا کر بولا
"دو کروڑ روپے کے فراڈ اور فیکٹری چوکیدار کے قتل کے الزا م میں آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے"
" فراڈ!!!!!!!!!!!!!!!! قتل!!!!!!!!!"
وہ روہانسی آواز میں چلایا۔۔۔۔ مگر اُسکےہاتھ ہتھکڑیوں میں مقید ہو چُکے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ تختہِ دار پہ پہنچ چُکا تھا پھانسی کا پھندہ اُسکی پتھرائی ہوئی آنکھوں کے سامنے تھا،یادوں کا تسلسل پھر سے جُڑا۔۔۔۔۔ چالان ہوا۔۔۔ مقدمہ چلا۔۔۔ چند کالے کورٹ میں ملبوس لوگوں میں بحث ہوئی ،مگر وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھوں پہ کالی پٹی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔ فردِ جُرم لگا۔۔۔ شہادتیں لکھی گئیں۔۔۔ ثبُوت پیش ہوئے۔۔۔ ۔۔۔ کمرہ عدالت میں موجود سب لوگ سچائی دیکھنے اور سُننے سے قاصر تھے۔۔۔۔
وہ بے گُناہ تھا مگر گواہ اور ثبُوت اُسکے خلاف تھے۔۔۔۔۔۔ فراڈ کی 2 کروڑ کی رقم اسکے دوست امجد سے برآمد ہو چُکی تھی اور وہ وعدہ معاف گواہوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا چُکا تھا۔۔۔۔۔
اُسکی سماعت میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی ۔۔۔۔
" تمام گواہوں اور ثبُوتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ عدالت انور علی ولد غلام علی کو تعزیراتِ پاکستان کی دفع 302 کے تحت مُجرم گردانتے ہوئے سزائے موت کا حُکم سُناتی ہے"
"He Should be hanged till death"
جلاد اسکے چہرے پر نقاب ڈالنے کے بعد پھندہ اُسکی گردن میں ڈال چُکا تھا۔ 6 بجنے میں کُچھ ہی لمحے باقی تھے۔۔فضا میں پُر ہول سناٹا طاری تھا ، جلاد کے ہاتھ لیور پر تھے اور آنکھیں جیلر پر۔۔۔۔۔ 6بجے۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اور جلاد نے لیور دبا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
اک لمحے کےلئےکھڑاک کی آواز نے سناٹے کو توڑا۔۔۔۔۔ اور لامتناہی خاموشی کا اک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدل کی دیوی آنکھوں پہ کالی پٹی باندھے خاموشکھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top