نذر حسین ناز
محفلین
ہم کالے ہیں۔
آئینے سے پوچھ کے دیکھو
گورے دکھنے والے چہرے سب کالے ہیں۔
چاہے کتنے رنگ چڑھائیں
لیکن پھر بھی من کالا ہے
میری یہ تہذیب بھی کالی
شہروں کے ماتھے پہ کالک، گاؤں کالے
کالے دھن اور کالے من سے لتھڑے ہوئے یہ گھر کالے ہیں
اپنے آپ سے باہر آ کر
چار قدم کی دوری سے میں
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں میرے اندر کتنی کالک پھیل گئی ہے
اندر کا یہ کالا پن کب چھپ سکتا ہے
سورج میری آنکھ پہ آ کر رقص کرے یا
چاند میری آنکھوں میں اپنا عکس اتارے
کالے پن سے باہر آنا ناممکن ہے
باندھ رکھا ہے کالا کپڑا آنکھوں پر
بچپن ہی سے دیکھ رہا ہوں کالے خواب
------------------------------
نذر حُسین ناز
آئینے سے پوچھ کے دیکھو
گورے دکھنے والے چہرے سب کالے ہیں۔
چاہے کتنے رنگ چڑھائیں
لیکن پھر بھی من کالا ہے
میری یہ تہذیب بھی کالی
شہروں کے ماتھے پہ کالک، گاؤں کالے
کالے دھن اور کالے من سے لتھڑے ہوئے یہ گھر کالے ہیں
اپنے آپ سے باہر آ کر
چار قدم کی دوری سے میں
اپنا چہرہ دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں میرے اندر کتنی کالک پھیل گئی ہے
اندر کا یہ کالا پن کب چھپ سکتا ہے
سورج میری آنکھ پہ آ کر رقص کرے یا
چاند میری آنکھوں میں اپنا عکس اتارے
کالے پن سے باہر آنا ناممکن ہے
باندھ رکھا ہے کالا کپڑا آنکھوں پر
بچپن ہی سے دیکھ رہا ہوں کالے خواب
------------------------------
نذر حُسین ناز