ناصر علی مرزا
معطل
کامیابی اور ناکامی میں واحد فرق
عبدالرشید
کامیابی اور ناکامی میں واحد فرق :
انسان عادت کی مخلوق ہیں۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ قدیم کہاوت سنتا رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو اس سے اختلاف کرتے نہیں سنا۔ شاید اس لیے کہ یہ کہاوت 100 فیصد سچی ہے۔درحقیقت ہم اس سے کہیں زیادہ عادت کا نتیجہ ہوتے ہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ بعض نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ ہمارے 95 فیصد رویے عادت سے تشکیل پاتے ہیں۔ جہاں کوئی شخص اس عدد سے اختلاف کر سکتا ہے، وہاں مجھے یقین ہے کہ کوئی شخص اس امر سے اختلاف نہیں کرے گا کہ ہماری عادتیں ہم پر زبردست گرفت رکھتی ہیں۔ ان میں سے بیش تر ہمارے چاہے بغیر ہم میں راسخ ہونے لگتی ہیں۔ ابتدا میں عادت ایک قسم کا دکھائی نہ دینے والا دھاگا بُنتی ہے۔ تاہم تکرار (Repetition) سے وہ دھاگا موٹا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک رسی بن جاتا ہے۔ ہم جب بھی کسی عمل کو دہراتے ہیں، ہم عادت کو مزید پختہ کر دیتے ہیں۔ یہ رسی زنجیر بن جاتی ہے اور آخر کار ہم اپنی عادتوں کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہم وہ بن جاتے ہیں، جو ہماری عادتیں ہوتی ہیں۔ انگریزی کے ایک شاعر جون ڈرائیڈن (John Dryden) نے تین سو سال پہلے کہا تھا ’’پہلے ہم اپنی عادتوں کو بناتے ہیں اور پھر ہماری عادتیں ہمیں بناتی ہیں۔‘‘ عادت کے حقیقی معنی عادت کے حقیقی معنی ہیں: لباس اور جس طرح ہم لباس روز پہنتے ہیں اسی طرح ہم عادتیں بھی روز پہنتے ہیں۔ ہماری شخصیت ہمارے رجحانات، ہماری عادتوں اور ہماری ظاہری وضع قطع کا مجموعہ ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہمارے وہ خواص ہماری شخصیت ہوتے ہیں، جن سے ہم پہچانے جاتے ہیں، ہمارے وہ حصے جنھیں ہم دوسروں پر عیاں کرتے ہیں۔ ہمارے کپڑوں کی طرح ہماری ساری عادتیں بھی حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم کسی ایک بھی عادت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ہم اِنھیں سیکھتے ہیں، اسی طرح جس طرح اپنے رجحانات کو سیکھتے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں اور تکرار (Repetition) کے ساتھ پختہ ہوتی ہیں۔ اس بات کی سائنسی وضاحت کرنا میرا مقصد نہیں ہے کہ ہم عادتیں کیوں اور کس طرح اپناتے ہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب عادتوں کو اپناتے ہیں۔ عادتیں انسان کا حصہ ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ان سے بچ نہیں سکتا۔ میں لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دیتا کہ وہ عادتیں تشکیل دینے سے گریز کریں۔
وہ چاہیں بھی تو ایسا نہیں کر سکتے۔ میں انہیں نصیحت کروں گا کہ وہ جس قسم کی عادتوں کو تشکیل دے رہے ہیں، ان پر غور کریں۔ خواہ ہم اسے پسند کریں یا نہیں، ہم اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ ہماری عادتیں انجام کار یا تو ہمارے حق میں کام کرتی ہیں یا ہمارے خلاف۔ ایک حقیقی مسئلہ میرا خیال ہے کہ کبھی اچھی عادتوں کو تشکیل دینے پر کافی زور نہیں دیا گیا ہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم ایک ہی جملے میں ’’اچھی‘‘ اور ’’عادت‘‘ کے الفاظ کو تب سنتے ہیں جب ہمارا کوئی استاد ہمیں مطالعے کی اچھی عادت کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ اگر اچھی عادتیں اسکول میں کامیابی کا باعث بنتی ہیں‘ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کامیابی کا باعث بنیں گی۔ تاہم بدقسمتی سے ہماری بری عادتیں بہت زیادہ توجہ حاصل کر لیتی ہیں، جس سے صرف یہ نتیجہ نکلتاہے کہ وہ پختہ ہو جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عادتوں کے مثبت پہلوئوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور اچھی عادتوں کو تشکیل دینے کے لیے اپنی زیادہ توانائی استعمال کریں۔ ان کے ثمرات (Rewards) دیکھ کر ہمیں ان کو تشکیل دینے کا مزید حوصلہ ملے گا۔ جیت اور عادت مجھے اسکول کے علاوہ کالج میں بھی اچھی عادتوں کی اہمیت بتائی گئی۔ تاہم میں نے اچھی عادتیں کلاس روم میں نہیں سیکھیں۔ میں نے انھیں باسکٹ بال کورٹ(Court) میں سیکھا۔
مجھے اس کھیل کا سچ مچ جنون تھا اور گیند کو جالی میں پھینکنے کا عمل تو بہت ہی پسند تھا۔ تاہم ہائی اسکول کے ایک غیر معمولی کوچ (Coach) نے مجھے بتایا کہ کھیل کے دوسرے پہلو بھی ہیں، یعنی فٹ ورک (Footwork)، دفاع، پوزیشننگ (Positioning) اور پاسنگ (Passing)۔ جب میں ٹیم میں نیا نیا شامل ہوا تب اس نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں اتنا اچھا کھلاڑی بننا چاہتا ہوںکہ کالج کی ٹیم میں بھی شامل ہو سکوں تو مجھے صرف شوٹر (Shooter) ہی نہیں بلکہ مکمل کھلاڑی بننا ہو گا۔ اس نے کہا تھا ’’تم یہ مہارتیں، اُنھیں درست انداز میں کرنے اور پھر بار بار دہرانے سے سیکھ سکتے ہو۔ تم اُنھیں جتنا زیادہ دہرائو گے، اتنا ہی زیادہ آسانی سے کھیل کے دوران ضرورت پڑنے پر تم اُنھیں استعمال کر سکو گے۔ ہمارے کوچ نے مجھے اس انداز سے بتایا تھا کہ باسکٹ بال محض تفریح نہیںہوتی۔ عملی طور پر یہ محنت طلب کھیل ہوتا ہے، اسے سیکھنے کے لیے مشق کرنا ہو گی اور درد سہنا ہو گا۔ اسے سیکھنے کے لیے ایک سی حرکات بار بار دہرانا ہوں گی۔ ایک دن جب ہم ڈرل کر رہے تھے،
جس سے ہمیں سب سے زیادہ نفرت تھی، تو اس نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم اسے اتنی بار کرو کہ سوتے میں بھی کرنے لگو۔‘‘ اورمجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تھا۔ میں سو کر اٹھا‘ تو مجھے تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ساری رات سوتے میں دفاعی فٹ ورک کی مشق کرتا رہا تھا۔اس ساری بات کا نتیجہ یہ تھا کہ اچھی عادتیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ جس طرح ہمارے کوچ نے کہا تھا جب کھیل کا وقت آتا‘ تو ہم خودبخود درست کام کرنے لگتے تھے۔ وہ مہارتیں ہمیں فطرتاً حاصل نہیں ہوتی تھیں۔ یہ ہم نے اپنے کوچ کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے سیکھی تھیں اور ہمارے کوچ کی ہدایت تھی کہ اچھی عادتیں تشکیل دو۔ جب میں کالج میں داخل ہوا‘ تو مجھے ایک سب سے زیادہ کامیاب کوچ کے لیے کھیلنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ اس زمانے میں اپنے پیشے میں ایک نہایت قابل احترام انسان تھا۔ اس کی وجہ سے اچھی عادتوں کی اہمیت کے متعلق میری تعلیم اعلیٰ تر درجے تک پہنچ گئی۔ جب میں کالج میں دوسرے سال کا طالب عمل تھا‘ توکوچ نے مجھے ایک ایسا سبق دیا جسے میں نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہم آپس میں میچ کھیل رہے تھے،
جس کے دوران میں نے باسکٹ کے نیچے پہنچ کر ایک پاس وصول کیا اور تیزی سے ایک آسان شاٹ کے لیے اوپر اُچھلا۔ واحد مسئلہ یہ تھا کہ دفاع کرنے والے لڑکے نے میرا حملہ روک لیا۔کوچ نے کھیل رکوا دیا اور نشان دہی کی کہ اگر میں نے چند چھوٹی چھوٹی غلطیاں نہ کی ہوتیں‘ تو میں نے دو پوائنٹ بنا لیے ہوتے۔ اس نے کہا کہ جب میں نے پاس وصول کیا تھا‘ تو میں نے نیچے فرش کی طرف دیکھا‘گیند کو ایک بار اُچھالا اور پھر شاٹ کے لیے اوپر اُچھلا تھا۔ اس نے سمجھایا کہ میں نے جو کچھ کیا تھا اس سے دفاعی کھلاڑی کو مجھے روکنے کے لیے تیاری کا وقت مل گیا ۔ اس نے مجھے کہا میں اپنے ہاتھوں، اپنے سر اور اپنی آنکھوں کو اوپر رکھنے کی عادت اپنائوں، پھر فوراً شاٹ کے لیے اُچھلوں۔ اس نے کہا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی عادتیں اپنانے سے میری مجموعی اثر آفرینی میں بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔ پھر اس نے یہ بھی کہا ’’اچھی عادتیں فرق ڈالتی ہیں، صرف کھیل میں نہیں بلکہ ہمارے ہر کام میں بھی۔‘‘ میں اس انسان کی زبردست ستائش کرتا ہوں۔ اس نے مجھے ایک ایسا کھیل کھیلنا سکھایا، جو مجھے بہت زیادہ پسند تھا اور اس دوران اس نے مجھے میری زندگی کا سب سے قیمتی سبق بھی سکھایا۔کوچ کا احترام اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ اس کی ٹیمیں میچ جیت جایا کرتی تھیں، اس کا احترام اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ وہ اصول کے تحت کوچنگ کرتا اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔ جب اس نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عادتیں فرق ڈالتی ہیں، اس کے فوری بعد مجھے اس حقیقت کا پتا چلا کہ میں اسی وجہ سے تو اس کا اس قدر احترام کرتا تھا۔ اس کے اعلیٰ اصول درحقیقت اس کی عادتیں تھیں اور ان پر وہ ہر روز عمل کرتا تھا۔ چند برس پہلے کوچ فوت ہو گیا جب کہ میرا کھیل کا زمانہ اس سے بھی پہلے ختم ہو گیا، تاہم ایک اچھے استاد کا اثر ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ سبق سکھایا کہ اچھی عادتیں حقیقتاً ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔ ہم کوئی درست کام ایک مرتبہ کر کے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ہم درست کام باقاعدگی سے کر کے کامیاب ہوتے ہیں۔ عادتیں ہر کامیابی کی کنجی ہیں۔ عادتوں کو بدلنا جب بھی میں اس موضوع پر سوچتا ہوں تو ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ رجحانات کی طرح عادتوں کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ عادت کو تبدیل کرنے کے لیے نہ تو کسی شخص کی عمر کو دلیل بنایا جا سکتاہے اور نہ ہی اس بات کو کہ یہ عادت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے واحد اور اہم شے خواہش ہے۔ تم کہہ سکتے ہو ’’کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ بوڑھے کتے کو نئے کرتب نہیں سکھائے جا سکتے؟ تقریباً گیارہ سال پہلے میرے دوست نے اپنی ایک تکلیف دہ عادت کو تبدیل کیا۔ وہ عادت تھی گالیاں دینا۔ اب وہ یہ کہتے ہوے شرمندہ ہے کہ اس سارے عرصے میں، اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ گالیاں دینا درست نہیں ہے۔ تاہم میرے ایک دوست نے، جس کا میں نہایت ممنون ہوں، ایک دن بڑی نرمی کے ساتھ مجھے اس عادت کے برے ہونے سے آگاہ کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے اس حقیقت کا علم ہے کہ جو لفظ میں استعمال کرتا ہوں، وہ میرے متعلق کسی نہ کسی شے کا انکشاف کرتے ہیں؟
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کبھی سوچا ہے کہ میرے بعض الفاظ دوسروں کے لیے جارحانہ ہوتے ہیں؟ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ کیا میں ان سے بہتر الفاظ میں بات کرنے کا اہل نہیں ہوں جو کہ زیادہ موثر ہوں؟ میرے پاس گالیاں دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ چناںچہ اس پر تھوڑا غور کرنے کے بعد میں نے گالیاں دینا چھوڑدیا۔ بس اتنی سی بات تھی۔ کیوں؟ اوّل، اس وجہ سے کہ میں نے ضرورت کو دیکھا۔ میری زبان بہت جارحانہ اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہوتی تھی۔ دوم، اس وجہ سے کہ اس بری عادت کو چھوڑنے کی خواہش بہت مضبوط تھی۔ میں نے جتنا زیادہ اپنے دوست کی باتوں پر غور کیا، گالیاں دینے کی بری عادت کو چھوڑنے کی خواہش اتنی زیادہ مضبوط ہوتی گئی۔ میں یہ کہتا ہوں شراب نوشی، سگریٹ نوشی یا منشیات خوری کی عادت کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ تاہم نقطہ آغاز وہی ہے: ضرورت کو دیکھنا اور خواہش کا حامل ہونا۔ اگر یہ دو عناصر موجود نہ ہوں تو ساری دنیا کے مدد کرنے کے باوجود عادت تبدیل نہیں ہو گی۔ پرانی عادت اور قوتِ ارادی کسی پرانی عادت کو چھوڑنے کے لیے قوت ارادی کو استعمال کرنا حقیقتاً کارگر رہتا ہے۔ سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ثابت ہوا ہے کہ پرانی عادت کی جگہ کوئی نئی عادت اپنائی جائے۔ اس کی جگہ کوئی ایسا رویہ اپنایا جائے جو کہ زیادہ مثبت ہو۔ یہ تکنیک سیکڑوں سال پرانی ہے۔ بنجمن فرینکلننے بدترین عادات کی جگہ اچھی عادات اپنائی تھیں۔
اس نے ان 13 صفات کی فہرست بنائی جنھیں وہ اپنانا چاہتا تھا۔ اس نے اُنھیں ان کی اہمیت کے مطابق ترتیب دیا تھا اور ہر ایک کے لیے الگ صفحہ استعمال کیا تھا۔ اس نے ایک وقت میں ایک صفت پر ایک ہفتہ توجہ مرکوز کی۔ اگر وہ اس صفت کو اپنانے میں ناکام رہتا ‘تو اس کے آگے ایک سیاہ نشان لگا دیتا تھا۔ اس طرح اس نے مستقل مزاجی کے ساتھ باری باری تمام صفات پر کام کیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اسے کسی کے سامنے بھی سیاہ نشان نہیں لگانا پڑا۔ گویا وہ اُن اچھی عادات کو اپنا چکا تھا۔ اس تکنیک کے ذریعے اس نے اپنے ایسے رویوں کو جو کہ اس کے لیے نقصان دہ تھے، اس طرح ترک کیا کہ نئے اور فائدہ بخش رویوں کو اپنایا۔بنجمن فرینکلن نے شعوری کوشش کر کے بہتر عادتیں اپنائی تھیں۔ اس طرح وہ ایک بہتر انسان بن گیا۔ عادت اور کردار باسکٹ بال کی تربیت کے نتیجے میں مجھے ہماری زندگیوں میں عادات کے ادا کردہ کردار میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ خاص طور پر اس دن جب ہمارے کوچ نے کہا تھا ’’اچھی عادات ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔‘‘ جب میں نے اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اواخر میں زندگی کے متعلق چند اہم باتیں جانیں، وہاں میں یہ بھی سمجھنے لگا کہ عادات، کردار اور حقیقی کامیابی میں تعلق ہوتا ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ عمل کا بیج بوئو… عادت کی فصل کاٹو، عادت کا بیج بوئو… کردار کی فصل کاٹو، کردار کا بیج بوئو… قسمت کی فصل کاٹو۔‘‘ جب میری عادتیں اور کردار بہتر ہوئے‘ تو میری زندگی کا معیار بھی بہتر ہو گیا۔ تاہم کوئی شخص صرف اپنے تجربوں ہی کی بنیاد پر کوئی تھیوری قائم نہیں کر سکتا، اس کی تائید کے لیے ثبوتوں کا ہونا ضروی ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے عادت کے موضوع پر لکھی گئی تحریریں پڑھنے کے لیے لائبریریاں اور کتابوں کی دکانیں کھنگال ڈالیں۔ مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ اہمیت کے باوجود عادت کے موضوع پر زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئی تھیں۔ تا ہم جو دو کتابیں مجھے ملیں، ان دونوں نے میرے اس یقین کو پختہ کیا کہ عادتیں کردار کی عکاس ہوتی ہیں۔ پہلی کتاب کا عنوان تھا Habits of the Heart اور اس کا مصنف عمرانیات داں (Sociologist) روبرٹ بیلا اور اس کے چار رفقا تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’’ہم جس قسم کی زندگی چاہتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں، ہم کس کردار کے حامل ہیں۔ ہماری املاک یا تکنیکس ہمیں کامیابی عطا نہیں کرتیں۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کون ہیں۔‘‘ ہماری سب سے زیادہ اہم عادتیں وہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعے ہم دوسرے لوگوں اور باقی دنیا سے جڑے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ اصولوں اور اچھے کردار والے لوگ درج ذیل عادتوں کے حامل ہوتے ہیں: ۔ دیانت داری ۔ دوسرے لوگوں کی فکر ۔ خدمت گزاری ۔ایفائے عہد ۔ خدا سے بے لوث محبت وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم صرف اپنی ہی فکر کریں گے‘ تو اچھی زندگی ممکن نہیں ہو گی۔ اچھی زندگی ’’کمانی‘‘ پڑتی ہے۔ زندگی سے صرف لینا نہیں ہوتا، اس کو کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ دوسری کتاب کا عنوان تھا: ’’The Seven Habits of Highly Effective People‘‘اور اسے سٹیفن آرکووے نے لکھا تھا۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے:’’Restoring the Character Ethics‘‘ سٹیفن کووے کہتا ہے کہ بے شمار لوگ خارجی کامیابی کے گرویدہ ہوتے ہیں۔ وہ اسے حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خالی پن محسوس کرتے ہیں۔
وہ چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے طریقے تو سیکھ لیتے ہیں لیکن ان اصولوں اور عادتوں کو نہیں اپناتے جو انسان کو اپنی قدر و قیمت اور اطمینان کا احساس عطا کرتی ہیں۔ جب امریکا نیا نیا آزاد ہوا تھا، اس زمانے میں ہم بچوں کو کرداری اخلاقیاتسکھاتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے مادی دولت کے جلد سے جلد حصول کی جستجو شروع کی‘ تو وہ کرداری اخلاقیات سے دور چلے گئے۔ سٹیفن کہتا ہے: ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم واپس جائیں تا کہ عظیم قوم اور عظیم ملک بن سکیں وہ کہتا ہے: ’’کرداری اخلاقیات سکھاتی تھی کہ موثر زندگی کے چند بنیادی اصول ہیں اور یہ کہ لوگ ان اصولوں کو اپنے بنیادی کردار سے جوڑ کر ہی سچی کامیابی اورلافانی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اچھی عادتیں ہمارے ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔ وہ حقیقی کامیابی کی کنجی ہوتی ہیں۔ ’’ہم جو کچھ بار بار کرتے ہیں، ہم وہی ہوتے ہیں۔ یعنی اعلیٰ کارکردگی ایک عمل نہیں بلکہ عادت ہے۔‘‘(ارسطو)
عبدالرشید
کامیابی اور ناکامی میں واحد فرق :
انسان عادت کی مخلوق ہیں۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ یہ قدیم کہاوت سنتا رہا ہوں۔ میں نے کبھی کسی کو اس سے اختلاف کرتے نہیں سنا۔ شاید اس لیے کہ یہ کہاوت 100 فیصد سچی ہے۔درحقیقت ہم اس سے کہیں زیادہ عادت کا نتیجہ ہوتے ہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ بعض نفسیات دانوں کا خیال ہے کہ ہمارے 95 فیصد رویے عادت سے تشکیل پاتے ہیں۔ جہاں کوئی شخص اس عدد سے اختلاف کر سکتا ہے، وہاں مجھے یقین ہے کہ کوئی شخص اس امر سے اختلاف نہیں کرے گا کہ ہماری عادتیں ہم پر زبردست گرفت رکھتی ہیں۔ ان میں سے بیش تر ہمارے چاہے بغیر ہم میں راسخ ہونے لگتی ہیں۔ ابتدا میں عادت ایک قسم کا دکھائی نہ دینے والا دھاگا بُنتی ہے۔ تاہم تکرار (Repetition) سے وہ دھاگا موٹا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک رسی بن جاتا ہے۔ ہم جب بھی کسی عمل کو دہراتے ہیں، ہم عادت کو مزید پختہ کر دیتے ہیں۔ یہ رسی زنجیر بن جاتی ہے اور آخر کار ہم اپنی عادتوں کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ ہم وہ بن جاتے ہیں، جو ہماری عادتیں ہوتی ہیں۔ انگریزی کے ایک شاعر جون ڈرائیڈن (John Dryden) نے تین سو سال پہلے کہا تھا ’’پہلے ہم اپنی عادتوں کو بناتے ہیں اور پھر ہماری عادتیں ہمیں بناتی ہیں۔‘‘ عادت کے حقیقی معنی عادت کے حقیقی معنی ہیں: لباس اور جس طرح ہم لباس روز پہنتے ہیں اسی طرح ہم عادتیں بھی روز پہنتے ہیں۔ ہماری شخصیت ہمارے رجحانات، ہماری عادتوں اور ہماری ظاہری وضع قطع کا مجموعہ ہوتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہمارے وہ خواص ہماری شخصیت ہوتے ہیں، جن سے ہم پہچانے جاتے ہیں، ہمارے وہ حصے جنھیں ہم دوسروں پر عیاں کرتے ہیں۔ ہمارے کپڑوں کی طرح ہماری ساری عادتیں بھی حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم کسی ایک بھی عادت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ہم اِنھیں سیکھتے ہیں، اسی طرح جس طرح اپنے رجحانات کو سیکھتے ہیں۔ وہ وقت کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں اور تکرار (Repetition) کے ساتھ پختہ ہوتی ہیں۔ اس بات کی سائنسی وضاحت کرنا میرا مقصد نہیں ہے کہ ہم عادتیں کیوں اور کس طرح اپناتے ہیں۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب عادتوں کو اپناتے ہیں۔ عادتیں انسان کا حصہ ہوتی ہیں۔ کوئی بھی ان سے بچ نہیں سکتا۔ میں لوگوں کو یہ مشورہ نہیں دیتا کہ وہ عادتیں تشکیل دینے سے گریز کریں۔
وہ چاہیں بھی تو ایسا نہیں کر سکتے۔ میں انہیں نصیحت کروں گا کہ وہ جس قسم کی عادتوں کو تشکیل دے رہے ہیں، ان پر غور کریں۔ خواہ ہم اسے پسند کریں یا نہیں، ہم اپنی عادتوں کے غلام بن جاتے ہیں۔ ہماری عادتیں انجام کار یا تو ہمارے حق میں کام کرتی ہیں یا ہمارے خلاف۔ ایک حقیقی مسئلہ میرا خیال ہے کہ کبھی اچھی عادتوں کو تشکیل دینے پر کافی زور نہیں دیا گیا ہے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ہم ایک ہی جملے میں ’’اچھی‘‘ اور ’’عادت‘‘ کے الفاظ کو تب سنتے ہیں جب ہمارا کوئی استاد ہمیں مطالعے کی اچھی عادت کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔ اگر اچھی عادتیں اسکول میں کامیابی کا باعث بنتی ہیں‘ تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی کامیابی کا باعث بنیں گی۔ تاہم بدقسمتی سے ہماری بری عادتیں بہت زیادہ توجہ حاصل کر لیتی ہیں، جس سے صرف یہ نتیجہ نکلتاہے کہ وہ پختہ ہو جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عادتوں کے مثبت پہلوئوں پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور اچھی عادتوں کو تشکیل دینے کے لیے اپنی زیادہ توانائی استعمال کریں۔ ان کے ثمرات (Rewards) دیکھ کر ہمیں ان کو تشکیل دینے کا مزید حوصلہ ملے گا۔ جیت اور عادت مجھے اسکول کے علاوہ کالج میں بھی اچھی عادتوں کی اہمیت بتائی گئی۔ تاہم میں نے اچھی عادتیں کلاس روم میں نہیں سیکھیں۔ میں نے انھیں باسکٹ بال کورٹ(Court) میں سیکھا۔
مجھے اس کھیل کا سچ مچ جنون تھا اور گیند کو جالی میں پھینکنے کا عمل تو بہت ہی پسند تھا۔ تاہم ہائی اسکول کے ایک غیر معمولی کوچ (Coach) نے مجھے بتایا کہ کھیل کے دوسرے پہلو بھی ہیں، یعنی فٹ ورک (Footwork)، دفاع، پوزیشننگ (Positioning) اور پاسنگ (Passing)۔ جب میں ٹیم میں نیا نیا شامل ہوا تب اس نے مجھے کہا تھا کہ اگر میں اتنا اچھا کھلاڑی بننا چاہتا ہوںکہ کالج کی ٹیم میں بھی شامل ہو سکوں تو مجھے صرف شوٹر (Shooter) ہی نہیں بلکہ مکمل کھلاڑی بننا ہو گا۔ اس نے کہا تھا ’’تم یہ مہارتیں، اُنھیں درست انداز میں کرنے اور پھر بار بار دہرانے سے سیکھ سکتے ہو۔ تم اُنھیں جتنا زیادہ دہرائو گے، اتنا ہی زیادہ آسانی سے کھیل کے دوران ضرورت پڑنے پر تم اُنھیں استعمال کر سکو گے۔ ہمارے کوچ نے مجھے اس انداز سے بتایا تھا کہ باسکٹ بال محض تفریح نہیںہوتی۔ عملی طور پر یہ محنت طلب کھیل ہوتا ہے، اسے سیکھنے کے لیے مشق کرنا ہو گی اور درد سہنا ہو گا۔ اسے سیکھنے کے لیے ایک سی حرکات بار بار دہرانا ہوں گی۔ ایک دن جب ہم ڈرل کر رہے تھے،
جس سے ہمیں سب سے زیادہ نفرت تھی، تو اس نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم اسے اتنی بار کرو کہ سوتے میں بھی کرنے لگو۔‘‘ اورمجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تھا۔ میں سو کر اٹھا‘ تو مجھے تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ساری رات سوتے میں دفاعی فٹ ورک کی مشق کرتا رہا تھا۔اس ساری بات کا نتیجہ یہ تھا کہ اچھی عادتیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ جس طرح ہمارے کوچ نے کہا تھا جب کھیل کا وقت آتا‘ تو ہم خودبخود درست کام کرنے لگتے تھے۔ وہ مہارتیں ہمیں فطرتاً حاصل نہیں ہوتی تھیں۔ یہ ہم نے اپنے کوچ کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے سیکھی تھیں اور ہمارے کوچ کی ہدایت تھی کہ اچھی عادتیں تشکیل دو۔ جب میں کالج میں داخل ہوا‘ تو مجھے ایک سب سے زیادہ کامیاب کوچ کے لیے کھیلنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہ اس زمانے میں اپنے پیشے میں ایک نہایت قابل احترام انسان تھا۔ اس کی وجہ سے اچھی عادتوں کی اہمیت کے متعلق میری تعلیم اعلیٰ تر درجے تک پہنچ گئی۔ جب میں کالج میں دوسرے سال کا طالب عمل تھا‘ توکوچ نے مجھے ایک ایسا سبق دیا جسے میں نے کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہم آپس میں میچ کھیل رہے تھے،
جس کے دوران میں نے باسکٹ کے نیچے پہنچ کر ایک پاس وصول کیا اور تیزی سے ایک آسان شاٹ کے لیے اوپر اُچھلا۔ واحد مسئلہ یہ تھا کہ دفاع کرنے والے لڑکے نے میرا حملہ روک لیا۔کوچ نے کھیل رکوا دیا اور نشان دہی کی کہ اگر میں نے چند چھوٹی چھوٹی غلطیاں نہ کی ہوتیں‘ تو میں نے دو پوائنٹ بنا لیے ہوتے۔ اس نے کہا کہ جب میں نے پاس وصول کیا تھا‘ تو میں نے نیچے فرش کی طرف دیکھا‘گیند کو ایک بار اُچھالا اور پھر شاٹ کے لیے اوپر اُچھلا تھا۔ اس نے سمجھایا کہ میں نے جو کچھ کیا تھا اس سے دفاعی کھلاڑی کو مجھے روکنے کے لیے تیاری کا وقت مل گیا ۔ اس نے مجھے کہا میں اپنے ہاتھوں، اپنے سر اور اپنی آنکھوں کو اوپر رکھنے کی عادت اپنائوں، پھر فوراً شاٹ کے لیے اُچھلوں۔ اس نے کہا کہ ایسی چھوٹی چھوٹی عادتیں اپنانے سے میری مجموعی اثر آفرینی میں بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔ پھر اس نے یہ بھی کہا ’’اچھی عادتیں فرق ڈالتی ہیں، صرف کھیل میں نہیں بلکہ ہمارے ہر کام میں بھی۔‘‘ میں اس انسان کی زبردست ستائش کرتا ہوں۔ اس نے مجھے ایک ایسا کھیل کھیلنا سکھایا، جو مجھے بہت زیادہ پسند تھا اور اس دوران اس نے مجھے میری زندگی کا سب سے قیمتی سبق بھی سکھایا۔کوچ کا احترام اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ اس کی ٹیمیں میچ جیت جایا کرتی تھیں، اس کا احترام اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ وہ اصول کے تحت کوچنگ کرتا اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔ جب اس نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عادتیں فرق ڈالتی ہیں، اس کے فوری بعد مجھے اس حقیقت کا پتا چلا کہ میں اسی وجہ سے تو اس کا اس قدر احترام کرتا تھا۔ اس کے اعلیٰ اصول درحقیقت اس کی عادتیں تھیں اور ان پر وہ ہر روز عمل کرتا تھا۔ چند برس پہلے کوچ فوت ہو گیا جب کہ میرا کھیل کا زمانہ اس سے بھی پہلے ختم ہو گیا، تاہم ایک اچھے استاد کا اثر ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ اس نے مجھے یہ سبق سکھایا کہ اچھی عادتیں حقیقتاً ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔ ہم کوئی درست کام ایک مرتبہ کر کے کامیاب نہیں ہوتے بلکہ ہم درست کام باقاعدگی سے کر کے کامیاب ہوتے ہیں۔ عادتیں ہر کامیابی کی کنجی ہیں۔ عادتوں کو بدلنا جب بھی میں اس موضوع پر سوچتا ہوں تو ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ رجحانات کی طرح عادتوں کو بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ عادت کو تبدیل کرنے کے لیے نہ تو کسی شخص کی عمر کو دلیل بنایا جا سکتاہے اور نہ ہی اس بات کو کہ یہ عادت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔ اس حوالے سے واحد اور اہم شے خواہش ہے۔ تم کہہ سکتے ہو ’’کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ بوڑھے کتے کو نئے کرتب نہیں سکھائے جا سکتے؟ تقریباً گیارہ سال پہلے میرے دوست نے اپنی ایک تکلیف دہ عادت کو تبدیل کیا۔ وہ عادت تھی گالیاں دینا۔ اب وہ یہ کہتے ہوے شرمندہ ہے کہ اس سارے عرصے میں، اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ گالیاں دینا درست نہیں ہے۔ تاہم میرے ایک دوست نے، جس کا میں نہایت ممنون ہوں، ایک دن بڑی نرمی کے ساتھ مجھے اس عادت کے برے ہونے سے آگاہ کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے اس حقیقت کا علم ہے کہ جو لفظ میں استعمال کرتا ہوں، وہ میرے متعلق کسی نہ کسی شے کا انکشاف کرتے ہیں؟
اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کبھی سوچا ہے کہ میرے بعض الفاظ دوسروں کے لیے جارحانہ ہوتے ہیں؟ اس نے مجھ سے یہ بھی پوچھا کہ کیا میں ان سے بہتر الفاظ میں بات کرنے کا اہل نہیں ہوں جو کہ زیادہ موثر ہوں؟ میرے پاس گالیاں دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ چناںچہ اس پر تھوڑا غور کرنے کے بعد میں نے گالیاں دینا چھوڑدیا۔ بس اتنی سی بات تھی۔ کیوں؟ اوّل، اس وجہ سے کہ میں نے ضرورت کو دیکھا۔ میری زبان بہت جارحانہ اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہوتی تھی۔ دوم، اس وجہ سے کہ اس بری عادت کو چھوڑنے کی خواہش بہت مضبوط تھی۔ میں نے جتنا زیادہ اپنے دوست کی باتوں پر غور کیا، گالیاں دینے کی بری عادت کو چھوڑنے کی خواہش اتنی زیادہ مضبوط ہوتی گئی۔ میں یہ کہتا ہوں شراب نوشی، سگریٹ نوشی یا منشیات خوری کی عادت کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ تاہم نقطہ آغاز وہی ہے: ضرورت کو دیکھنا اور خواہش کا حامل ہونا۔ اگر یہ دو عناصر موجود نہ ہوں تو ساری دنیا کے مدد کرنے کے باوجود عادت تبدیل نہیں ہو گی۔ پرانی عادت اور قوتِ ارادی کسی پرانی عادت کو چھوڑنے کے لیے قوت ارادی کو استعمال کرنا حقیقتاً کارگر رہتا ہے۔ سب سے زیادہ موثر طریقہ یہ ثابت ہوا ہے کہ پرانی عادت کی جگہ کوئی نئی عادت اپنائی جائے۔ اس کی جگہ کوئی ایسا رویہ اپنایا جائے جو کہ زیادہ مثبت ہو۔ یہ تکنیک سیکڑوں سال پرانی ہے۔ بنجمن فرینکلننے بدترین عادات کی جگہ اچھی عادات اپنائی تھیں۔
اس نے ان 13 صفات کی فہرست بنائی جنھیں وہ اپنانا چاہتا تھا۔ اس نے اُنھیں ان کی اہمیت کے مطابق ترتیب دیا تھا اور ہر ایک کے لیے الگ صفحہ استعمال کیا تھا۔ اس نے ایک وقت میں ایک صفت پر ایک ہفتہ توجہ مرکوز کی۔ اگر وہ اس صفت کو اپنانے میں ناکام رہتا ‘تو اس کے آگے ایک سیاہ نشان لگا دیتا تھا۔ اس طرح اس نے مستقل مزاجی کے ساتھ باری باری تمام صفات پر کام کیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ اسے کسی کے سامنے بھی سیاہ نشان نہیں لگانا پڑا۔ گویا وہ اُن اچھی عادات کو اپنا چکا تھا۔ اس تکنیک کے ذریعے اس نے اپنے ایسے رویوں کو جو کہ اس کے لیے نقصان دہ تھے، اس طرح ترک کیا کہ نئے اور فائدہ بخش رویوں کو اپنایا۔بنجمن فرینکلن نے شعوری کوشش کر کے بہتر عادتیں اپنائی تھیں۔ اس طرح وہ ایک بہتر انسان بن گیا۔ عادت اور کردار باسکٹ بال کی تربیت کے نتیجے میں مجھے ہماری زندگیوں میں عادات کے ادا کردہ کردار میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ خاص طور پر اس دن جب ہمارے کوچ نے کہا تھا ’’اچھی عادات ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔‘‘ جب میں نے اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اواخر میں زندگی کے متعلق چند اہم باتیں جانیں، وہاں میں یہ بھی سمجھنے لگا کہ عادات، کردار اور حقیقی کامیابی میں تعلق ہوتا ہے۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ عمل کا بیج بوئو… عادت کی فصل کاٹو، عادت کا بیج بوئو… کردار کی فصل کاٹو، کردار کا بیج بوئو… قسمت کی فصل کاٹو۔‘‘ جب میری عادتیں اور کردار بہتر ہوئے‘ تو میری زندگی کا معیار بھی بہتر ہو گیا۔ تاہم کوئی شخص صرف اپنے تجربوں ہی کی بنیاد پر کوئی تھیوری قائم نہیں کر سکتا، اس کی تائید کے لیے ثبوتوں کا ہونا ضروی ہوتا ہے۔ چنانچہ میں نے عادت کے موضوع پر لکھی گئی تحریریں پڑھنے کے لیے لائبریریاں اور کتابوں کی دکانیں کھنگال ڈالیں۔ مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ اہمیت کے باوجود عادت کے موضوع پر زیادہ کتابیں نہیں لکھی گئی تھیں۔ تا ہم جو دو کتابیں مجھے ملیں، ان دونوں نے میرے اس یقین کو پختہ کیا کہ عادتیں کردار کی عکاس ہوتی ہیں۔ پہلی کتاب کا عنوان تھا Habits of the Heart اور اس کا مصنف عمرانیات داں (Sociologist) روبرٹ بیلا اور اس کے چار رفقا تھے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ’’ہم جس قسم کی زندگی چاہتے ہیں، اس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں، ہم کس کردار کے حامل ہیں۔ ہماری املاک یا تکنیکس ہمیں کامیابی عطا نہیں کرتیں۔ کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کون ہیں۔‘‘ ہماری سب سے زیادہ اہم عادتیں وہ ہوتی ہیں، جن کے ذریعے ہم دوسرے لوگوں اور باقی دنیا سے جڑے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ اصولوں اور اچھے کردار والے لوگ درج ذیل عادتوں کے حامل ہوتے ہیں: ۔ دیانت داری ۔ دوسرے لوگوں کی فکر ۔ خدمت گزاری ۔ایفائے عہد ۔ خدا سے بے لوث محبت وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم صرف اپنی ہی فکر کریں گے‘ تو اچھی زندگی ممکن نہیں ہو گی۔ اچھی زندگی ’’کمانی‘‘ پڑتی ہے۔ زندگی سے صرف لینا نہیں ہوتا، اس کو کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ دوسری کتاب کا عنوان تھا: ’’The Seven Habits of Highly Effective People‘‘اور اسے سٹیفن آرکووے نے لکھا تھا۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے:’’Restoring the Character Ethics‘‘ سٹیفن کووے کہتا ہے کہ بے شمار لوگ خارجی کامیابی کے گرویدہ ہوتے ہیں۔ وہ اسے حاصل تو کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خالی پن محسوس کرتے ہیں۔
وہ چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے طریقے تو سیکھ لیتے ہیں لیکن ان اصولوں اور عادتوں کو نہیں اپناتے جو انسان کو اپنی قدر و قیمت اور اطمینان کا احساس عطا کرتی ہیں۔ جب امریکا نیا نیا آزاد ہوا تھا، اس زمانے میں ہم بچوں کو کرداری اخلاقیاتسکھاتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے مادی دولت کے جلد سے جلد حصول کی جستجو شروع کی‘ تو وہ کرداری اخلاقیات سے دور چلے گئے۔ سٹیفن کہتا ہے: ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم واپس جائیں تا کہ عظیم قوم اور عظیم ملک بن سکیں وہ کہتا ہے: ’’کرداری اخلاقیات سکھاتی تھی کہ موثر زندگی کے چند بنیادی اصول ہیں اور یہ کہ لوگ ان اصولوں کو اپنے بنیادی کردار سے جوڑ کر ہی سچی کامیابی اورلافانی خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ اچھی عادتیں ہمارے ہر کام میں فرق ڈالتی ہیں۔ وہ حقیقی کامیابی کی کنجی ہوتی ہیں۔ ’’ہم جو کچھ بار بار کرتے ہیں، ہم وہی ہوتے ہیں۔ یعنی اعلیٰ کارکردگی ایک عمل نہیں بلکہ عادت ہے۔‘‘(ارسطو)