کاشفی

محفلین
غزل
(جگر مراد آبادی)

کام آخر جذبہء بے اختیار آہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا، اُن کو پیار آہی گیا

جب نگاہیں اُٹھ گئیں، اللہ رے معراجِ شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جانِ انتظار آہی گیا

ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آہی گیا

ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آہی گیا

اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدہء فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آہی گیا

ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے ، مجھ کو پیار آہی گیا

درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتاً پردہ اُٹھا اور پردہ دار ہی آگیا

دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آہی گیا

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
 
Top