فرخ منظور
لائبریرین
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو غمّاز اپنا
سوزشِ دل سے زباں کو نہ ہوئی آگاہی
اُف کیا منہ سے نہ ہم نے، نہ کھُلا راز اپنا
خوف ہوتا ہے جگر، زمزمہ سن کر بے یار
دل دُکھاتی ہے مغنّی تری آواز اپنا
نہ سنی یار نے اِک بات سخن سازوں کی
رہ گئے کھول کے منہ مفسدہ پرداز اپنا
پر کترنے سے تو صیّاد چھری ہی پھیرے
قصہ کوتاہ کرے حسرتِ پرواز اپنا
برہمن کھولے ہی گا بت کدہ کا دروازہ
بند رہنے کا نہیں کار خدا ساز اپنا
یاد آتی ہیں ادائیں جو تری اے محبوب
بھول جاتے ہیں حسینانِ جہاں ناز اپنا
مرغِ دل صید گہِ عشق چلا ہے دیکھیں
طعمہ کرتا ہے اسے کونسا شہباز اپنا
روٹھ کر ملنے جو جاتا ہوں تو کہتا ہے وہ شوخ
کل خفا تم تھے مزاج آج ہے ناساز اپنا
خبرِ اوّل و آخر نہیں مطلق آتش
نہ تو انجام ہے معلوم نہ آغاز اپنا