کاوش برائے اصلاح مفاعیلن

زلفی شاہ

لائبریرین
میں نے پوچھا کلامِ زلفی یقینا ہی لا ثانی ہے
کہا نا پختگی طفلِ دبستاں کی نشانی ہے
میں نے پوچھا ہیں بکھرے آج گیسو چہرے پر کس لئے
کہا کہ چاند تاروں نے شکایت جو لگانی ہے
میں نے پوچھا کیوں شب بھر مسلسل آہ و زاری ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت پرانی ہے
میں نے پوچھا کیا تم پیار ہمارا بھول گئے ساجن
کہا دیکھو وہ لگتی بھولی بسری اک کہانی ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
کہا کیا تو نے بھی گنوانی اپنی زندگانی ہے
میں نے پوچھا مے خانہ میں کیوں ہنگامہ تھا برپا
کہا دیوانوں کی دیوانگی سمجھو پرانی ہے
میں نے پوچھا کیوں ہے ماند سورج کی کرن آج کل
کہا وہ زلفِ پر خم رخ سے دلبر نے ہٹانی ہے
میں نے پوچھا کیوں ہیں دیپ یادوں کے دریچوں میں
کہا کہ لوٹ کے آتی کہاں پھر وہ جوانی ہے
میں نے پوچھا لٹائے جام پہ کیوں جام جاتے ہو
کہا ساقی کی جاری آج ارفع مہربانی ہے
 
السلام و علیکم،
محترم، گو میری حیثیت میرا مرتبہ اس قابل نہیں کہ اصلاح کر سکوں، لیکن ایک طالب علم کی حیثیت سے کچھ عرض کر دیتا ہوں۔
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے آپ کی کاوش بحر بزج مثمن سالم میں ہے اور اس کے افاعیل
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ہیں
میں آپ کے کلام کے کچھ حصہ کو کوشش کرتا ہوں کہ اسی بحر میں ڈھال دوں ایسے کہ اُس کے معنی وہی رہیں جو کہ آُپ نے لکھے ہیں، اُس کے بعد آپ اور میں دونوں اساتذہ کا انتظار کریں گے انشااللہ
اب مثال کے لیے اس قدر

میں نے پوچھا کلامِ زلفی یقینا ہی لا ثانی ہے
کہا نا پختگی طفلِ دبستاں کی نشانی ہے
میں نے پوچھا ہیں بکھرے آج گیسو چہرے پر کس لئے
کہا کہ چاند تاروں نے شکایت جو لگانی ہے
میں نے پوچھا کیوں شب بھر مسلسل آہ و زاری ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت پرانی ہے
میں نے پوچھا کیا تم پیار ہمارا بھول گئے ساجن
کہا دیکھو وہ لگتی بھولی بسری اک کہانی ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
کہا کیا تو نے بھی گنوانی اپنی زندگانی ہے
میں نے پوچھا مے خانہ میں کیوں ہنگامہ تھا برپا
کہا دیوانوں کی دیوانگی سمجھو پرانی ہے

اب یہ تبدیلیاں میری ناقص راءے میں

میں نے پوچھا کلامِ زلفی کا بھی کوئی ثانی ہے
کہا نا پختگی طفلِ دبستاں کی نشانی ہے
میں نے پوچھا ہیں بکھرے آج گیسو چھپ گیا چہرہ
کہا کہ چاند تاروں نے شکایت جو لگانی ہے
میں نے پوچھا کہ شب بھرکیوں مسلسل آہ و زاری ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت ہی پرانی ہے
میں نے پوچھا کہ سجنا پیار کیوں بھولے ہمارا تُم
کہا دیکھو وہ لگتی بھولی بسری اک کہانی ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
کہا کیا تو نے بھی گنوانی اپنی زندگانی ہے
میں نے پوچھا کہ مے خانہ میں ہنگامہ تھا کیوں برپا
کہا دیوانوں کی دیوانگی سمجھو پرانی ہے

باقی تین اشعار آپ خود کوشش کیجیے

اساتذہ سے جسارت کے لیے پیشگی معزرت کے ساتھ
خاکسار
اظہر
 

ایم اے راجا

محفلین
السلام و علیکم،
محترم، گو میری حیثیت میرا مرتبہ اس قابل نہیں کہ اصلاح کر سکوں، لیکن ایک طالب علم کی حیثیت سے کچھ عرض کر دیتا ہوں۔
جہاں تک میری ناقص عقل کام کرتی ہے آپ کی کاوش بحر بزج مثمن سالم میں ہے اور اس کے افاعیل
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ہیں
میں آپ کے کلام کے کچھ حصہ کو کوشش کرتا ہوں کہ اسی بحر میں ڈھال دوں ایسے کہ اُس کے معنی وہی رہیں جو کہ آُپ نے لکھے ہیں، اُس کے بعد آپ اور میں دونوں اساتذہ کا انتظار کریں گے انشااللہ
اب مثال کے لیے اس قدر

میں نے پوچھا کلامِ زلفی یقینا ہی لا ثانی ہے
کہا نا پختگی طفلِ دبستاں کی نشانی ہے
میں نے پوچھا ہیں بکھرے آج گیسو چہرے پر کس لئے
کہا کہ چاند تاروں نے شکایت جو لگانی ہے
میں نے پوچھا کیوں شب بھر مسلسل آہ و زاری ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت پرانی ہے
میں نے پوچھا کیا تم پیار ہمارا بھول گئے ساجن
کہا دیکھو وہ لگتی بھولی بسری اک کہانی ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
کہا کیا تو نے بھی گنوانی اپنی زندگانی ہے
میں نے پوچھا مے خانہ میں کیوں ہنگامہ تھا برپا
کہا دیوانوں کی دیوانگی سمجھو پرانی ہے

اب یہ تبدیلیاں میری ناقص راءے میں

میں نے پوچھا کلامِ زلفی کا بھی کوئی ثانی ہے
کہا نا پختگی طفلِ دبستاں کی نشانی ہے
میں نے پوچھا ہیں بکھرے آج گیسو چھپ گیا چہرہ
کہا کہ چاند تاروں نے شکایت جو لگانی ہے
میں نے پوچھا کہ شب بھرکیوں مسلسل آہ و زاری ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت ہی پرانی ہے
میں نے پوچھا کہ سجنا پیار کیوں بھولے ہمارا تُم
کہا دیکھو وہ لگتی بھولی بسری اک کہانی ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
کہا کیا تو نے بھی گنوانی اپنی زندگانی ہے
میں نے پوچھا کہ مے خانہ میں ہنگامہ تھا کیوں برپا
کہا دیوانوں کی دیوانگی سمجھو پرانی ہے

باقی تین اشعار آپ خود کوشش کیجیے

اساتذہ سے جسارت کے لیے پیشگی معزرت کے ساتھ
خاکسار
اظہر
بہت خوب اظہر صاحب آپ نے اشعار کو خوب کردیا بس ایک لفظ مجھے کھٹک رہا ہے
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے وہ پردہ
یہاں محل " یہ " کا ہے سو یہ مصرعہ یو ں ہو تو بہتر ہو گا۔
میں نے پوچھا اٹھے گا کب رخِ زیبا سے یہ پردہ
اور ہاں یہاں بھی شاید "یہ "ہی بھلی لگے گی۔​
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت ہی پرانی ہے
کہا مجھ کو تو شب بیداری کی عادت یہ پرانی ہے
 

الف عین

لائبریرین
’میں نے پوچھا‘ تو اس بحر میں کسی طرح فٹ نہیں ہوتا۔ ’منے پوچا‘ آتا ہے۔ جو غلط ہے۔ باقی اظہر بحر میں لا ہی چکے ہیں۔ جو درست ہے۔ لیکن میرا مشورہ یہی ہو گا کہ عروض کے بارے میں کچھ شد بد حاصل کر لیں۔ کافی افاقہ ہو گا انشاء اللہ
 
Top