ناز خیالوی ""کاٹنا ہے یہ اذیت کا سفر، کاٹتے ہیں"" نازؔ خیالوی

کاٹنا ہے یہ اذیت کا سفر، کاٹتے ہیں
نام لکھ کر ترا با دیدہِ تر کاٹتے ہیں

جس کے سائے میں لڑکپن کی بہاریں کھیلیں
اب جواں ہاتھ وہی بوڑھا شجر کاٹتے ہیں

ان کو مسند پہ بٹھانے کے ہیں مجرم سارے
دیکھنا یہ ہے کہ کس کس کا وہ سر کاٹتے ہیں

نازؔ خیالوی
 
Top