'' کاکول پریڈ'' (خاورچودھری)

خاورچودھری

محفلین
غالب نے کہا تھا
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ ٔعزت نہیں مجھے

مرحوم نے ٹھیک ہی فرمایا ہوگا' لیکن آج لوگ انھیں اُن کے شاعر ہونے کی وجہ سے ہی یادکرتے ہیں نہ کہ اُن کے آباکی سپہ گری کے باعث۔ مجھ سمیت ہزاروں لوگوں کے دلوں میں غالب کا نقش اُن کے اشعار کی وجہ سے جاگتا ہے۔غالباً غالب نے اپنے ہم عصر اور استاذِشاہ جناب محمدابراہیم ذوق کے اس شعر کونشانہ بنایا ہے
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق
اولاد سے تو ہے 'یہی دو پشت چار پشت

استاذوں کی بلائیں دُور ہوتی ہیں'اس لیے کوڑی بھی دُور ہی کی لاتے ہیں اور ہم ایسے لوگ اپنامدعابیان کرنے کے لیے اُن کے سجھائے ہوئے نکات کورو بہ راہ کرتے ہوئے منزلیں سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیر!آج ان اساتذہ کے اشعار مجھے' کاکول پریڈ' کی وجہ سے یادآئے ہیں۔کاکول پریڈ ہمارے دوست میجراسدمحمودخان کی وہ کتھا ہے جو انھوں نے اپنے اکیڈمی کے دنوں کو یادگاربنانے کی غرض سے حیطۂ خیال سے باہرلاکھڑی کی ہے اور اَب علم و اَدب کے طالب علم اپنے اپنے انداز سے اُس سے حظ اُٹھانے میں مصروف ہیں۔
غالب نے توعملاً سپہ گری سے دُور ہوتے ہوئے بھی سپہ گری پرفخر کااظہارکیاتھا مگرہمارے اس دوست نے باقاعدہ فوجی ہونے کے باوجوداپنے لیے اَدب کا راستہ چُنا۔ گویاہمارا یہ دوست ذوق کاہم نوا ہے۔پھران کے سامنے افواج پاکستان میںموجود اُن قلم کاروں کی ایک تاب ناک روایت بھی ہے جنھوں نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قلم تھام رکھے ہیں۔ یہی ہماری روایت بھی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کئی ایک گزرے ہیں 'جنھوں نے دونوں میدانوں میں یک ساںپیش قدمی کی اور اپنے زمانے میں نام وَر ہوئے۔ بات گھوم کر پھر وہیں آجاتی ہے کہ اُن کی شہرت بہ ہرحال اُن کے قلم کی وجہ سے قائم رہی ہے۔
ہمارے یہاں کرنل شفیق الرحمان کی'حماقتیں' اور'مزیدحماقتیں' نے خوب رنگ جمایا۔صدیق سالک کے نام کی گونج بھی بہت دُورتک سنائی دی۔برگیڈئیر ارشادحسین ترمذی ' رئیس احمد جعفری کے نام بھی خاص حوالوں سے ظاہرہوتے ہیں اورپھرفیض احمد فیض کا تعلق بھی فوج سے رہا۔مشہورمزاح نگارضمیرجعفری (ان کی صدارت میں مجھے بھی مشاعرے پڑھنے کا شرف حاصل ہے) مرحوم توخاص مقام رکھتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے فوجی زمانے کو بعض اشعار میں بہت خوب صورتی سے یادگاربنایا ہے۔اُن کی ایک نظم'برگیڈکاچڑیاگھردیکھو' تو خوب گدگداتی ہے۔سومیں میجراسدمحمودخان کی 'کاکول پریڈ' کواسی سفرکا تسلسل سمجھتا ہوں ۔یہ کتاب ہے توکاکول اکیڈمی کی کتھا مگراس کابیانیہ مزاح آمیز ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے جگہ جگہ ایسے موقعے آتے ہیں جب آپ کے لبوں پرمسکراہٹ کی باریک لکیریں زوایے بنارہی ہوتی ہیں۔کتاب میں جہاں فوجی جوانوں کی 'بے تابیاں' رنگ آمیزی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں وہاں ان جوانوں کی تربیت پرمامورعملے کی خاص عادات اور مروجہ گفتگو کوبھی زیربحث لایا گیا ہے اور یہ بحث ایسی نہیںہے کہ اس میں سے کسی کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو'بلکہ شروع سے آخر تک مسکراہٹ کی کڑیاں ہیں جو ایک دوسرے میں باہم پیوست ہیں۔فوجی اصطلاحات سے عام آدمی کہاں واقف ہوسکتا ہے'اس لیے مصنف نے سہولت کے لیے تشریح بھی ساتھ ساتھ کردی ہے۔ جیسے کاشن'کارپول'ایس آئی کیو' پٹھو'یرموک'ہیورسیک'بگل کالز'الفارپورٹس' فال اِن'فراگ جمپ'فرنٹ رول وغیرہ۔ اس کے علاوہ وہ کاشن جو ہم مخصوص ایام میں فوجی پریڈوں کے دوران سنتے تو ہیں مگربولنے والوںکے خاص مزاج کے باعث سمجھ نہیںپاتے' یہاں لکھی ہوئی حالت میں موجود ہیں۔ جیسے' دائیں مڑ' دوڑے چل'رائفل اَپ 'آسان باش وغیرہ۔ یہ تو وہ خاص اصطلاحات ہیں جوفوجیوں کی زندگیوں کاحصہ ہیں مگرسچ یہ ہے کہ عام آدمی بھی ان کو سن کرمحظوظ ہوتا ہے اور اس ماحول میں خود کوفوجی سمجھنے لگتا ہے۔
عام حالات میں لوگ کاکول اکیڈمی کی تربیت کا سُن کرتھرتھرکانپتے ہیں اورسنانے والوں سے سننے کے بعدتونوجوان کسی بھی طوروہاں جانے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے مگر اس کتاب میں اس انداز سے نقشہ کھینچاگیا ہے کہ پڑھنے والا وہاں جانے کی تمنا کرنے لگتا ہے۔نٹ کھٹ جنٹل مینوں' اسٹاف اور چاچاؤں کی کھینچا تانی اورآنکھ مچولی اتنے دل کش پیرائے میں بیان کی گئی ہے کہ جی کرتاہے یہ سلسلہ بڑھتاہی جائے۔
میجراسدمحمودخان کااندازشستہ اور شگفتہ ہے اورتحریرمیں تازگی نمایاں ہے۔بات سے بات نکالنا اور لفظ کو نئے مفہوم دینا ان کاخاص ہنرمعلوم ہوتاہے۔ پھر بعض انگریزی الفاظ کو 'قومیانے' اور بعض اُردو الفاظ کومغربی جامہ پہنانے میں بھی انھیں ملکہ حاصل ہے۔ 'قومیانے' کے دائرے میں توبہت سے الفاظ آتے ہیں البتہ مغربیت کی طرف کم کم ہی جاتے ہیں مگرجوجاتے ہیںوہ پوری گھن گرج کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں جیسے انھوں نے محسوسات کو'محسوسمنٹ' کاقرینہ دیاہے۔استاذانِ فن کو اس پراعتراض ہوسکتا ہے لیکن مجھے اس لیے نہیں ہے کہ کاکول پریڈ کے لب ولہجے میں یہ لفظ ایسا جڑا ہوا ہے کہ بالکل بار نہیں گزرتا۔اس کتاب کانمایاں وصف یہ ہے کہ مصنف نے اپنے لیے جمع کاصیغہ استعمال کیا ہے جوشروع سے آخر تک دلچسپ فضا قائم کرتاہے۔ جس طرح میں نے کہا کہ اسدمحمودخان نے لفظوں کونئے مفاہیم پہنانے کی کوشش بھی کی ہے'ایسے الفاظ کئی ایک ہیں جنھیں توڑ کر بیان کرنے سے ایک نئی صورت نکلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اس ٹوٹنے کے عمل سے جو ندرت اورتازگی پیدا ہوئی ہے وہ احساس کوگدگداتی ضرور ہے۔
عسکری تربیت کے اس ادارے کے حدوداربعہ'شان وشوکت'وہاں کے منتظمین اور نئے کیڈٹس کے اساتذہ اورپلاٹون ساتھیوں'نئے دوستوں کی سستیوں اور کاہلیوں' غصے کی حالت میں خود کو جبرکرنے اور'شٹ اَپ' رہنے کو انتہائی خوش سلیقگی سے بیان کیا گیاہے۔فرنٹ رول ' فراگ جمپ اور'مقدس اشنان' جیسی سزاؤں کابیان پڑھنے سے پیٹ میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ صرف مقد س اشنان کو ہی دیکھ لیجیے کہ جب اسٹاف یاکسی اور تربیت کارکو کیڈٹس پرغصہ آتا ہے توپورے گروپ کووہ گندے نالے میں غوطے کھانے کاحکم دیتا ہے اور پھرمجبوراً سبھی کو مقدس اشنان کے اس عمل سے گزرناپڑتا ہے۔اسی طرح'پٹھو' کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح اکثر اوقات ان کیڈٹس پربہ ظاہرغیرضروری بوجھ لاددیاجاتا ہے جوسامنے سامنے اُن کے کسی کام کا نہیں ہوتا مگردراصل یہی توٹریننگ ہوتی ہے۔پھرتھکاوٹ کے باعث دارلمطالعہ میں جنٹل مینوں کے سونے کی عادت' خاص موقعوں پردی جانے والی'آف لائٹ بریفنگ' میں نیندپوری کرنے کاموقع اور'میس' میں کھانے کی غرض سے جانے کے باوجودکھانے دُوررہنے کی تکلیف برداشت کرنا۔سینئرزکوسیلوٹ پرسیلوٹ مارنا اور پھر اپنے دوستوں کی محفل میں انھیں خاص ناموں سے یادرکھنا۔اسی طرح سینئرزکے طرف سے ملنے والے'خطابات' پرایک دوسرے کے بخیے اُدھیڑنا بھی اورچھوٹی چھوٹی شرارتیں کرنا بھی 'کاکول پریڈ' کاحصہ بنادیا گیا ہے۔جوپڑھنے والے کے لیے واضح دلچسپی کا سبب ہے۔مثلاً کینٹین تک رسائی کی خاطربعض کاسینئربن کرجونیئرزکووہاںتک'دوڑے چل' کاکاشن دے کرلے جانا اور پھروہاں سے کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے بعدکسی واقف اسٹاف کے ہتھے چڑھ جانا۔اسی طرح تھکاوٹ کی وجہ سے ڈرل اور میل سے بچنے کی خاطرجھوٹ موٹ کا بیمارہوکر بستر پر پڑجانااور کئی کئی دن نیند کے مزے لینا بھی اس زندگی کے ایک رنگ کی صورت میں ظاہر کیا گیاہے۔پھرفوج میں سینہ بہ سینہ سفرکرنے والے لطائف کی طرف بھی اشارہ موجودہے۔
غرض یہ کہ یہ کتاب شروع سے آخر تک کاکول اکیڈمی میں زیرتربیت کیڈٹس کی 'آزادی 'اور'غلامی'کی بولتی' کھنکتی تصویر ہے۔میجراسدمحمودخان کی دو مزید کتابیں بھی شائع ہوکر علم واَدب کے طالب علموں تک پہنچ کرداد پاچکی ہیں۔یہ کتاب بھی سراہے جانے کے لائق ہے اورمیں سمجھتا ہوںطبیعت کوہشاش رکھنے کے لیے اس کتاب کوضرورمطالعے میں رہناچاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ خاور صاحب اپنا مضمون شیئر کرنے کیلیے، خوب لکھا آپ نے!

ہمارے یہاں کرنل شفیق الرحمان کی'حماقتیں' اور'مزیدحماقتیں' نے خوب رنگ جمایا۔صدیق سالک کے نام کی گونج بھی بہت دُورتک سنائی دی۔برگیڈئیر ارشادحسین ترمذی ' رئیس احمد جعفری کے نام بھی خاص حوالوں سے ظاہرہوتے ہیں اورپھرفیض احمد فیض کا تعلق بھی فوج سے رہا۔مشہورمزاح نگارضمیرجعفری (ان کی صدارت میں مجھے بھی مشاعرے پڑھنے کا شرف حاصل ہے) مرحوم توخاص مقام رکھتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے فوجی زمانے کو بعض اشعار میں بہت خوب صورتی سے یادگاربنایا ہے۔اُن کی ایک نظم'برگیڈکاچڑیاگھردیکھو' تو خوب گدگداتی ہے۔سومیں میجراسدمحمودخان کی 'کاکول پریڈ' کواسی سفرکا تسلسل سمجھتا ہوں

شفیق الرحمان، جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے اور عموماً اپنی کتب پر اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ (ڈاکٹر) یا عہدہ نہیں لکھتے تھے، جو "کرنل" مشہور ہیں وہ کرنل محمد خان ہیں جن کی "بجنگ آمد"، "بسلامت روی" اور "بزم آرائیاں" کا شمار طنز و مزاح کی خوبصورت ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔
 
Top