کباڑ خانے سے ’’ادبی ایجنٹ ‘‘ بننے کا سفر آسان نہیں:جوڈی جِل

کباڑ خانے سے ’’ادبی ایجنٹ ‘‘ بننے کا سفر آسان نہیں:جوڈی جِل
1631_58435739.jpg

لاکھوں ڈالرسالانہ کمانے والی آن لائن کالمسٹ اور ادبی شخصیت،جن کی زندگی محنت سے عبارت ہے

کباڑ خانے میں رہتے ہوئے بوریت سے بچنے کیلئے جوڈی اور اس کی بہن پرانے قلم سے اپنی ہتھیلیوں اور بازوئوں پر کارٹون بنایا کرتے ، اگر کباڑ میں سے کوئی کین ڈبہ مل جاتا تو اسے رسی باندھ کر پتلی تماشا تیار کرکے کھیل لیا کرتے ،جیسے ہی رات ڈھلتی دونوں بہنیں کوڑوں کے ڈھیر سے ٹوٹا پھوٹا فرنیچر یا بچا کھچا کھانا تلاش کرنے نکل پڑتیں ،غربت کی انتہا تھی کہ اس خاندان کے پاس منہ دیکھنے کو شیشہ بھی میسر نہ تھا *****
انسان کا زمین پر ٹھکانہ کہاں ہوتا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ گلیاں جس میں بچپن اورلڑکپن گزرا ہو ، جوانی کی بہاریں دیکھی ہوں ، کبھی نہیں بھولتیں ۔ لیکن تلاش روزگار میں انسان ہجرت کرتا رہتا ہے ۔ اس کے باوجود ماضی رفتہ کے ان سنہری دنوں کو نہیں بھولتا ۔ ہر کوئی اپنے آبائی گھر ، گائوں یا قصبے آنا چاہتا ہے ۔ اسے ساون میں پڑے جھولوں کی یاد ستاتی ہے ۔ گلیوں میں ’’لکن چھپی‘‘ کھیلنے کے مناظر نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں ۔ درختوں کی گھنی چھائوں میں کاٹی دوپہروں کا ایک ایک پل یاد آتا ہے ۔ بہت سی صورتیں جو پنہاں ہو گئی ہوں، یاد آتی ہیں ۔ لیکن معروف آن لائن کالمسٹ ، ادبی شخصیت جوڈی جِل کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔ جب وہ اس گھر میں آئیں جہاں انہوں نے آنکھ کھولی اورپلی بڑھی تھیں ، وہ ایک 10x20فٹ کا چھوٹا سا کمرہ بلکہ عوامی کباڑ خانہ تھا ۔ جہاں لوگ اپنی فالتو اشیاء رکھ جایا کرتے تھے اسی میں وہ اپنی والدہ ، والد اور چار بہن بھائیوں کیساتھ رہائش پذیر تھیں ۔رہائش کیا تھی بس یوں سمجھ لیں کہ مرغی کے ڈربے میں اتنے افراد نے زندگی کے وہ تلخ دن کاٹے جو ختم ہونے کو آتے ہی نہ تھے ۔ اور اب جوڈی اپنے بچپن کی تلخ یادوں کو سلگانے اپنی رہائش گاہ پر آئیں تو کچھ بھی نہ بدلا تھا البتہ چونے والی دیوار مزید زرد ہو چکی تھی ۔جگہ جگہ سے چونا اترا ہوا تھا اور وہ نیلی سبز آنکھوں والی جوڈی اپنی مخروطی انگلیوںکی پوروں سے ان شکستہ حال دیواروں کو چھو رہی تھی ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے ماضی کو چھو رہی ہو۔ جذبات امڈ آئے اور آنکھوں میں تیرتی نمی کو باہرآنے سے باز رکھنے کیلئے ضبط کے سارے بند باندھتے ہوئے وہ تیزی سے کمرے سے باہر آ گئیں ۔ اس نے دھاتی کنڈا چڑھایا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلی گئیں ۔اب اس نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھنا تھا۔ اس کھولی نما کمرے سے جوڈی کی کیا انسیت تھی اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے ۔ یہ سچ ہے کہ اس کا بچپن اپنے ننھیال کے پاس ایک کرائے کے گھر میں گزرا ۔ یہ د و بیڈ روم کا ایک چھوٹا سا گھر تھا جس کے پچھواڑے میں ایک جھولا تھا ۔ جوڈی کی اکثر شامیں اسی جھولے پر گزرتی تھیں ۔جوڈی کے والد اور ننھیال والوں میں ان بن ہوئی اور ایک شام اس کے والد نے حکم صادر کیا کہ ہم یہاں سے کہیں اور منتقل ہو رہے ہیں ۔ یہ سن کر وہ افسردہ ہو گئی ۔ وہ اس علاقے کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ۔ اس کے نانا اس سے بہت پیار کرتے تھے ۔ اپنی گود میں بٹھا کر لوک کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی کہانی سنے بنا اسے نیند نہیں آتی تھی لیکن والد نے فیصلہ کر لیا تھا ۔ پورے گھر کا سامان 68ماڈل کی فورڈ ویگن میں لاد دیا گیا ۔ یہ وہ واحد سرمایہ تھا جو اس کے والد کی ملکیت تھا ۔ جوڈی کی ماں نے اس کا ہاتھ تھام کر ویگن کی اگلی نشست پر سوار ہونے کیلئے کھینچا تو اس کے گالوں پر دو آنسو ٹپک پڑے اور وہ سسکی بھر کر اس میںسوار ہو گئی۔ ویگن سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی اور لگ رہا تھا جیسے کوئی منزل نہ ہو ۔کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد جوڈی کا یہ خدشہ سچ ثابت ہوا ۔ ان لوگوں کی واقعی کوئی منزل نہ تھی ۔ اور یہ بلا مقصد سڑکوں پر گھوم رہے تھے ۔ یہ سفر کتنے دنوں تک جاری رہا ۔ ہر شام سڑک کے کنارے گاڑی پارک کر کے سو جاتے اور اگلی صبح نامعلوم منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتے ۔ جوڈی کا والد سخت طبیعت کا مالک تھا اور اس بے مقصد سفر نے تو اسے اور بھی چڑ چڑا بنا دیا ۔ بچوں کو آپس میں بھی بولنے کی اجازت نہ تھی ۔ یہاں تک کہ وہ ریڈیو بھی نہیں سن سکتے تھے ۔ ہر شام انہیںایک سخت برگر کھانے کو ملتا اور وہ پانی پی کر پیٹ کی آگ بجھاتے ۔ جوڈی کی ماں کا نام پام اور والد کا نام ڈونلڈ ووبن تھا ۔ دونوں کا تعلق ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا ۔ لیکن قسمت ان پر مہربان نہ تھی ۔ ڈونلڈ جو بھی کام کرتا ناکام ہو جاتا ۔ انہی دنوں پام امید سے ہوئیں اور جوڈی کو جنم دیا ۔ ڈونلڈ کسی ہوٹل میں بیرا گیری کرنے لگا ۔ چھوٹی بچی کی پیدائش والے دن اسے نوکری سے جواب ہو گیا تو پام جانے کس امید کیساتھ اسے اپنے والدین کے ہاں رہنے کے لئے لے آئی ۔لیکن وہی والدین جو جوڈی سمیت گھر والوں پر مہربان تھے انہوںنے اس بچی سمیت جوڑے کو قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا ۔ اور وہ سڑک پر تھے ان کے پاس صرف ایک پرانے ماڈل کی گاڑی تھی جس میں ضروریات زندگی کا سامان تھا ۔ ڈونلڈ دن بھر مزدوری کرتا اور شام کو ایک وقت کا کھانا لیکر آتا ۔ ان کی پرانی گاڑی ہی ان کا گھر تھا ۔ جوڈی کہتی ہیں کہ بچپن میں اسے کبھی دودھ نصیب نہ ہوتا تھا ۔اسے یہ کہہ کر تسلی دی جاتی کہ دودھ میں ملاوٹ ہے جو صحت کیلئے مضر ہے ۔ اس لیے نہیں پینا چاہئے ۔ تین سال تک وہ خانہ بدوشوں کی زندگی بسر کرتے رہے ۔ آخر ایک سرد رات کو کسی بھلے مانس نے ان پر ترس کھایا اور رہنے کیلئے 10x20کا کمرہ کرائے پر دیدیا ۔ کمرہ کیا تھا کباڑ خانہ تھا ۔ ڈونلڈ نے بتایا کہ آج رات ہم اس عوامی سٹور نمبر 151میں گزاریں گے اور کل صبح ایک جھولے والا گھر مل جائیگا۔ جوڈی کو آج بھی یاد ہے کہ ماں نے کباڑ کی چیزوں کو ایک طرف سمیٹ کر سونے کی جگہ بنا دی۔ یخ رات کو جوڈی اس امید پر سونے کی کوشش میں تھی کہ صبح جھولے والا گھر مل جائیگا ۔ لیکن وہ سو نہ پائی ۔ اس لئے کہ موٹے موٹے چوہے ان کی آمد پر پریشان احتجاجاً ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور جوڈی سمٹ کر اپنی ماں کی گود میں گھس گئی ۔ صبح ہوئی تو جوڈی اس امید سے اٹھی کہ نیا گھر ان کا منتظر ہو گا لیکن وہاں کوئی ایسے آثار نہ تھے جو ان کی منتقلی کا سبب ہوتے ۔ جوڈی نے سوچ لیا کہ یہ کباڑ خانہ ہی اس کا گھر ہے ۔ البتہ اس کی ماں نے ایک مہربانی کی ، کپڑے کے تین جھولے باندھ دئیے ۔ اور اس طرح سے یہ خاندان چوہوں کی خوراک بننے سے بچ گیا ۔ کمرے کی دیوار کے ساتھ ایک ٹائلٹ تھا ۔ جس میں ایک پانی کی بالٹی بھی تھی ۔ جسے ہر روز قریبی جوہڑسے بھر لیا جاتا تھا ۔ البتہ نہانے کیلئے ایک اور صاف ستھری بالٹی بھی تھی ۔ اس کھولی نما کمرے کی دیوار پر لٹکا خستہ حال ہیٹر کمرے کے درجہ حرارت کو فریز ہونے سے بچانے میں کامیاب رہتا تھا ۔ اس کا ماہانہ کرایہ 45ڈالر تھا ۔ ڈونلڈ ایک پرانے پرنٹنگ پریس میں نوکری کر رہا تھا ۔جوڈی کو سختی سے منع تھا کہ وہ کسی کے ساتھ بات نہیں کرے گی تاکہ احساس کمتری کی ذلت سے بچا جا سکے ۔ بوریت سے بچنے کیلئے جوڈی اور اس کی بہن پرانے قلم سے اپنی ہتھیلیوں اور بازوئوں پر کارٹون بنایا کرتے تھے ۔ اور اگر کباڑ میں سے کوئی کین ڈبہ مل جاتا تو اسے رسی باندھ کر پتلی تماشا تیار کرکے کھیل لیا کرتے تھے ۔ جیسے ہی رات ڈھلتی دونوں بہنیں کوڑوں کے ڈھیروں سے ٹوٹا پھوٹا فرنیچر یا بچا کھچا کھانا تلاش کرنے نکل پڑتی تھیں ۔غربت کی انتہا تھی کہ اس خاندان کے پاس منہ دیکھنے کو شیشہ بھی میسر نہ تھا ۔ کئی مرتبہ وہ جوہڑ کے ساکن پانی میں اپنے بالوں کو ہاتھوں سے سنوار لیا کرتی تھیں ۔ اکثر ہوتا کہ دونوں بہنیں منہ پر جمی میل کی تہیں دیکھ کر اپنی شکلیں پہچاننے سے انکار کر دیتیں ۔ایک واقعہ جو جوڈی کے ذہن پر نقش ہو گیا اس نے صرف گلی میں جاتی ایک عورت کو دیکھ کر مسکراہٹ بکھیری ۔ پام کی نظر پڑ گئی اور اس نے جوڈی کو ایک تھپڑ جڑ دیا ۔ اس کے بعد اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ کسی اجنبی کو آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے ۔’’میرے والدین نے یہ بات کوٹ کوٹ کر میرے دماغ میں بٹھا دی تھی کہ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور ہمیں کسی سے بات نہیں کرنی ‘‘ ۔ یہ جوڈی کا خیال تھا۔ اس کھولی نما کمرے میں زندگی گھسیٹتے ہوئے ایک برس بیت گیا ۔ ایک دن کمرے کا مالک کبڑا باب آیا ۔ پام نے نا چاہتے ہوئے اسے اندر آنے کی اجازت دی اور باب کو ان کے حالات دیکھ کر دلی افسوس ہوا ۔ وہ کچھ کہے بغیر چلا گیا ۔ کہ آئندہ آپ کرایہ نہیں دیں گے ۔ جوڈی کے خاندان کے حالات سے دو لوگ اور بھی آگاہ تھے ۔ ان میں سے ایک حفاظتی گارڈ تھا اور دوسرا گلی کی نکڑ پر دکاندار ، جس نے ڈونلڈ کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ اس کی دکان کے پچھواڑے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اگا لے ۔ زندگی جیسے تیسے چل رہی تھی ۔ جوڈی آٹھ سال کی ہو گئی ۔ لیکن اسے کوئی لفظ نا پڑھنا آتا تھا نہ لکھنا آتا تھا وہ سکول کے تصور سے نا آشنا تھی لیکن اس کا تخیل اسے کچھ نہ کچھ کرنے پر آمادہ رکھتا تھا ۔ اسے کہیں سے ایک پرانا برش مل گیا ۔ وہ مٹی کو پانی میں گھول کر دیواروں پر پینٹنگ کرنے لگی ۔ اس کام میں اس کی مدد اس کی چھوٹی بہن بھی کیا کرتی تھی ۔ یوں لگتا تھا جیسے دونوں بہنیں ایک بڑی مصور ہوں ۔ دس سال کی عمر میں پہلی مرتبہ اس کی ماں اس سے بچھڑی ۔ وہ کمرے کا دروازہ بند کر کے بیٹھ گئی ۔ اس کی نظریں گلی کی نکڑ پر تھیں ۔ اندیشے تھے جیسے پام انہیں چھوڑ کر چلی گئی ہے لیکن اچانک اس نے دیکھا کہ پام گود میں ایک ننھا سا بچہ لئے نمودار ہوئی۔ اسے بتایا گیا کہ یہ تمہارا بھائی ہے لیکن جوڈی پریشان تھی کہ یہ کہاں سے آیا ۔ یہ بچہ غالباً ان کیلئے خوش بختی کی علامت بن کر آیا ۔ ڈونلڈ کی مزدوری میں اضافہ ہو گیا ۔ ان کے طرز زندگی میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں ۔ دونوں میاں بیوی باسی کھانے کی بجائے تازہ کھانا دستر خوان پر سجانے لگے ۔ اتوار کو بچوں کو قریب واقع لائبریری میں لے جایا جانے لگا ۔ پام اور ڈونلڈ تو میگزین پڑھ کر تسکین پاتے تھے اور جوڈی لائبریری کے بچوں والے سیکشن میں سارا وقت کتابیں دیکھتے گزارتی ۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ اسے لکھنا پڑھنا بالکل نہیں آتا تھا لیکن وہ کارٹونز سے خود ہی کہانی بنا لیا کرتی تھی ۔ وہاں سے ہی اس نے لکھنا پڑھنا شروع کیا ۔ ایک دن اس نے بندر اور سائیکل والی کہانی پڑھی ۔کتاب کیساتھ آڈیو کیسٹ تھی اور ہیڈ فون بھی تھا ۔جوڈی نے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا کر خود ہی کہانی بولنا شروع کر دی ۔پاس بیٹھے ایک بوڑھے شخص نے اس کی دلچسپی کو بھانپا اور اس دن کے بعد اسے روزانہ سبق دینے لگا ۔ چند ہی مہینوں کے بعد وہ ہر چیز لکھ اور پڑھ سکتی تھی ۔ لائبریری کی آدھی سے زیادہ کتابیں اسے از بر یاد ہو چکی تھیں ۔اب وہ جوانی کی دہلیز کو چھونے لگی ۔ 18سال کی عمر میں وہ پہلی مرتبہ لائبریری کے اس حصے میں گئی،جہاں بالغ حضرات کتب بینی کیا کرتے تھے ۔ جوڈی کہتی ہیں ان کتابوں نے مجھے ایسی دنیا سے متعارف کروایا جو میری زندگی کا حصہ نہ تھیں ۔ یہ سچ ہے کہ میں کتابوں کے بغیر نا مکمل تھی ۔وہ جتنا پڑھتی گئی بے چین ہوتی چلی گئی ۔ وہ اپنی سوچ کو تحریری شکل دینے لگی ۔ پھر ایک دن وہ مبارک دن آیا جب اس کی پہلی تحریر مقامی جریدے میں چھپی اور اسے 2ڈالر معمولی رقم کا پہلا چیک موصول ہوا ۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا ، گھر کی آمدنی میں اضافہ ہوا اور ان لوگوں نے ایک کمرے پر مشتمل گھر کرائے پر لے لیا ۔ یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی ۔ جانے ڈونلڈ کو آسان زندگی سے نفرت تھی ۔ اس کے چڑ چڑے پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اور وہ مار پیٹ پر اتر آیا ۔ آخر ایک دن وہ پام کو لیکر وہاں سے چلا گیا ۔ گھر میں جوڈی اور اس کی بہن اکیلے رہ گئیں ۔ ڈونلڈ جاتے ہوئے اپنے بیٹے کو ساتھ لے گیا ۔ جوڈی کو یہ جدائی اس لئے محسوس نہ ہوئی کیونکہ اس کا کتابوں کیساتھ عشق زوروں پر تھا ۔ وہ کتابیں پڑھتی اور مقامی دانشوروں سے گھنٹوں بحث کرتی ۔ اسے ان تمام مراحل سے آگاہی ہوئی کہ کتاب کیسے شائع ہوتی ہے ۔ وہ مارکیٹ جاتی ۔ پبلشرز سے ملتی ، پرنٹنگ پریس کا چکر لگاتی ۔ اس سے متعلق ہر شخص سے معلومات حاصل کرتی ۔اس مشق کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ مصنفہ ہونے کیساتھ ساتھ وہ ’’ادبی ایجنٹ ‘‘ کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کرے گی ۔ جوڈی نے بہت منصوبہ بندی سے اپنے کاروبار کا آغاز کیا ۔ اس نے ایک فرضی باس مسٹر کیرن ایڈن کا کردار تخلیق کیا ۔ ہ وہ باس تھا جو کبھی کسی سے نہیں ملتا تھا ۔ ہمیشہ میٹنگز میں مصروف رہتا ۔ا ور جوڈی اس کی قانونی مشیر کے طور پر سارے معاملات خود طے کرتی۔ تین سال کی ان تھک محنت کے بعد جوڈی کی اس فرم کے پاس درجنوں مصنفین کا کام آ چکا تھا ۔ تیس سال کی عمر میں وہ ایک کامیاب بزنس ویمن بن چکی تھیں ۔ کباڑ خانے کے کمرے میں پلنے والی جوڈی سے اب ناشرین ، مصنفین اور اس شعبے سے متعلق لوگ وقت لینے لگے ۔ جوڈی کا یہ سفر یہاں تھما نہیں ۔ وہ خود کہتی ہیں کہ وہ ایک لکھاری بن گئی اس لئے کہ انہوں نے اپنا بچپن خاموشی سے گزارا اور اب لکھنا ہی اس کا گویا سننا ہے ۔ اس دوران جوڈی نے ہالی وڈ کے ایونٹس پر مغز ماری کرنا شروع کی ۔ اسے موقع ملا ’’ ایگزیمینر ڈاٹ کام ‘‘پر اپنے تجزیاتی مضامین بھجوانے لگی ۔ یہ موقع اس کی قسمت کا دھنی بن کر سامنے آیا اور جوڈی چھا گئی ۔ اس وقت وہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ معاوضہ پانے والی مصنفہ ہیں ۔ وہ ایک مضمون کا ایک لاکھ ڈالر وصول کرتی ہیں ۔ اس کی رائے پر فلموں کی قسمت کھلتی اور بند ہوتی ہے۔وہ آج سنی سٹوڈیو کے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں جو کہ مہنگا ترین ایریا ہے ۔ اس کی بہن دوسرے شہر بیاہ کر چلی گئی ۔جوڈی کیساتھ اس کا پالتو کتا رہتا ہے ۔ 42سال کی عمر تک اس نے شادی نہیں کی ہے ۔ جوڈی نے جو کچھ لکھا اس میں سب سے زیادہ دلکش وہ تحریر ہے جس میں اس نے ان 173افراد کے بارے میں لکھا جو اس طرح کے کباڑ خانوں میں آج بھی رہائش پذیر ہیں ۔ جوڈی کے پاس اس کے بچپن کی کوئی تصویر نہیں ہے لیکن کباڑ خانے میں گزرے دن ہی اس کی زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ آج وہ کروڑ پتی ہے اور بہت مصروف زندگی گزار رہی ہے لیکن اس کباڑ خانے میں گزارے گئے دن اور رات اس کے بچپن کی وہ یادیں ہیں جو اکثر اس کے آنسوئوں کی وجہ بنتی ہیں۔
 
Top