نور وجدان
لائبریرین
کبڑا معاشرہ
ہم ایسے کبڑے ہیں جن کی پشت پہ مذہب کا بوجھ لدا ہوا ہے اور جن کے پیروں میں معاشرے کے کھڑاویں ہیں ۔ نہ تو ہم مذہب کا بوجھ اٹھانے کے اہل ہیں اور نہ ہی معاشرے کے کھڑاوں سے اپنے پیروں کو آزاد کر پاتے ہیں ۔نتیجتاً ہماری چال میں لڑکھڑاہٹ ہے ۔ ۔ ۔ اس کبڑے پن نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ ۔ہمارے پیچھے آنے والے ذہنی انتشار کا شکار ہیں ۔ ۔ ۔ہمارے بہکے بہکے قدموں کے نشاں ان کے کسی کام کے نہیں ۔ ۔ ہماری غیر متوازن چال نے ہمیں مضحکہ خیز بنا ڈالا ہے ۔ ۔ ۔ہم میں سے کسی نے کبھی مذہب کی بوری میں سے فالتو اور غیر ضروری سامان نکالنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ ۔ اور جس کسی نے بھی یہ کوشش کی ،اسے سولی چڑھا دیا گیا ۔ ۔ہم اپنے بزرگوں کے عطا کردہ انتہا پسند مذہبی ورثے میں تحریف کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ ۔ہمیں کبڑا پن دل و جان سے قبول ہے ۔ ۔ ہم تو اپنے معاشرتی کھڑاویں تک بدلنے کو تیار نہیں ۔ ۔پاؤں لہو لہان ہیں لیکن لکیر سے ہٹنے کو تیار نہیں ۔ ۔ پیچھے آنے والے ہمارے قدموں کے نشانات کی جگہ خون کے قطرے دیکھ کے انگشت بدنداں ہیں ، مایوسی ان کے روم روم پہ چھا رہی ہے ،ذہنی خلفشار نے ان کی حسیات مفلوج کر ڈالی ہیں ۔ ۔ ۔ہم کبڑوں کے جانشین آدھے تیتر اور آدھے بٹیر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
کسی شاعر کیا خوب ہمارا نقشہ کھینچا ہے ،
مجھے کبڑا نہ سمجھو ،زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا ہوں
فرح ظفر