نمرہ
محفلین
سودا کی زمین میں ایک غزل پر اصلاح درکار ہے۔
کبھی اپنی گردن کا خم دیکھتے ہیں
کبھی ان کی تیغِ ستم دیکھتے ہیں
وہاں عیش پیہم بہم دیکھتے ہیں
یہاں سیلِ گریہ کا نم دیکھتے ہیں
دلِ زار کی عمر کم دیکھتے ہیں
اگر ان کو محوِ کرم دیکھتے ہیں
چمن جو نشیمن بنانے کو چن لیں
اسے اگلے دن ہی بھسم دیکھتے ہیں
نہ بے اعتنائی جو مہ رو سے دیکھی
سو آج اپنی قسمت سے ہم دیکھتے ہیں
ہوا حرفِ اقرار نامہ اجل کا
بہ یک جنبشِ لب ارم دیکھتے ہیں
نگاہوں میں ان کی ہے سارا زمانہ
قلندر کہاں جامِ جم دیکھتے ہیں
سفینہ اتارا ہے وسطِ بھنور میں
ہم اب موجِ دریا کا دم دیکھتے ہیں
مکاں میں رہائش، خبر لامکاں کی
تخیل سے دشتِ عدم دیکھتے ہیں
لیے پھرتے ہیں کائنات اپنے دل میں
پرے اس خرابے سے کم دیکھتے ہیں