کبھی ایسا نہیں کرتے... برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک بے تکی غزل اصلاح کی منتظر ہے۔ امید ہے کہ بے تکیاں معاف فرمائیں گے۔

کبھی ایسا نہیں کرتے​
کبھی ویسا نہیں کرتے​
بتاؤ اب تم ہی جاناں​
کہ ہم کیسا نہیں کرتے​
تمہارا ساتھ حاصل ہے​
تمہیں سوچا نہیں کرتے​
چلو، دھڑکن ہو تم اپنی​
تمہیں بھولا نہیں کرتے​
جسے دل سے بھلاتے ہیں​
اُسے رویا نہیں کرتے​
جسے دل میں بساتے ہیں​
اُسے رسوا نہیں کرتے​
جسے اپنا بناتے ہیں​
اُسے چھوڑا نہیں کرتے​
بچھڑ کر اپنوں سے جاناں​
کبھی سنورا نہیں کرتے​
لو ہم تم سے بچھڑنے کا​
کبھی وعدہ نہیں کرتے​
 

احمد بلال

محفلین
وزن درست ہے۔ کچھ غلطیاں غلظ تصرفات کی وجہ سے آئی ہیں۔
بتاؤ اب تم ہی جاناں
کہ ہم کیسا نہیں کرتے
یہاں تم ہی کو اگر مفا پر ڈالا جائے تو اسے تمہی لکھنا چاہیئے۔ لیکن یہاں تم ہی سے معنی میں زور آتا ہے۔ اس مصرعے کو اس طرح کر لیا جائے تو بہتر ہے "بتاؤ تم ہی اب جاناں "
چلو، دھڑکن ہو تم اپنی
چلو ڈالنے کا کوئی معنی نہیں لگ رہا۔ یوں بہتر ہے " مرے دل کی ہو تم دھڑکن "
بچھڑ کر اپنوں سے جاناں
کے لیے میں یہ تجویز کروں گا۔ " بچھڑتے ہیں جو اپنوں سے" لیکن اس کے لیے الف عین صاحب کا انتظار کر لیا جائے تو بہتر ہے۔
لو ہم تم سے بچھڑنے کا
لو کو 1 پر باندھنا مرے خیال میں صحیح نہیں ہے۔ اور ویسے بھی یہاں یہ وزن پورا کرنے کےلیے ڈالا گیا ہے۔ اس مصرعے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور ساتھ ساتھ الف عین صاحب کی نظر کی بھی
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ احمد بلال، میں متفق ہوں تمہاری ساری باتوں سے۔ بلکہ میں یہ چاہوں گا کہ یہ شعبہ صرف میرا ہی نہ رہے، تم کو بھی اختیار ہے کہ تم بھی یہاں اصلاح کر دیا کرو، میں بھی کوئی سند یافتہ استادِ سخن تو نہیں۔
بتاؤ تم ہی اب جاناں​
کہ ہم کیسا نہیں کرتے​
کیسا؟ یہ مبہم ہے، اس کے بدلے اگر ’کیا کیا‘ کر دیا جائے تو؟​
’لو‘ کے استعمال کے بارے میں میں متفق ہوں، لیکن اس سے نہیں کہ یہ وزن مکمل کرنے کے لئے دالا گیا ہے۔ بیانیے میں زور پیدا ہو جاتا ہے لو کے اضافے سے۔ بہر حال یہ مصرع تبدیلی چاہتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ بلال اعظم کو ہی کوشش کرنے دیں​
 

احمد بلال

محفلین
شکریہ احمد بلال، میں متفق ہوں تمہاری ساری باتوں سے۔ بلکہ میں یہ چاہوں گا کہ یہ شعبہ صرف میرا ہی نہ رہے، تم کو بھی اختیار ہے کہ تم بھی یہاں اصلاح کر دیا کرو، میں بھی کوئی سند یافتہ استادِ سخن تو نہیں۔
بتاؤ تم ہی اب جاناں​
کہ ہم کیسا نہیں کرتے​
کیسا؟ یہ مبہم ہے، اس کے بدلے اگر ’کیا کیا‘ کر دیا جائے تو؟​
’لو‘ کے استعمال کے بارے میں میں متفق ہوں، لیکن اس سے نہیں کہ یہ وزن مکمل کرنے کے لئے دالا گیا ہے۔ بیانیے میں زور پیدا ہو جاتا ہے لو کے اضافے سے۔ بہر حال یہ مصرع تبدیلی چاہتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ بلال اعظم کو ہی کوشش کرنے دیں​
بندہ نواز یہ آپ کی اعلیٰ ظرفی ہے ۔ البتہ میں کہاں اس لائق کہ آپ کی ہمسری کروں۔ مجھے جو تھوڑی بہت سدھ بدھ ہے یہ آپ ہی کی وجہ سے ہے۔ آپ عمر ، تجربے، علم، عمل، ہر لحاظ سے مجھ سے بڑے ہیں۔ میں تو خود آپ کی دی گئی اصلاح سے سیکھتا ہوں۔

مصرعے میں"کیسا" کی جگہ "کیا کیا" لگانے سے مصرعے کو چار چاند لگ گئے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ کی آراء کی روشنی میں کی گئی تبدیلیاں اور چند مزید اشعار شامل کیے ہیں۔​
کبھی ایسا نہیں کرتے​
کبھی ویسا نہیں کرتے​
بتاؤ اب تم ہی جاناں​
کہ ہم کیا کیا نہیں کرتے
تمہارا ساتھ حاصل ہے​
تمہیں سوچا نہیں کرتے​
مرے دل کی ہو تم دھڑکن
تمہیں بھولا نہیں کرتے​
جسے دل سے بھلاتے ہیں​
اُسے رویا نہیں کرتے​
جسے دل میں بساتے ہیں​
اُسے رسوا نہیں کرتے​
جسے اپنا بناتے ہیں​
اُسے چھوڑا نہیں کرتے​
بچھڑتے ہیں جو اپنوں سے
کبھی سنورا نہیں کرتے​
کبھی تم سے بچھڑنے کا
تو ہم وعدہ نہیں کرتے
(میری نظر میں اس شعر میں ابھی بھی بہتری کی ضرورت ہے، یہ تبدیلی میں نے کمنٹ لکھتے لکھتے ہی کی ہے۔)
جو تارے ڈوب جاتے ہیں
کبھی ابھرا نہیں کرتے
سمجھنا ہی نہ ہو جس کو
اسے سمجھا نہیں کرتے
کبھی ہم ٹوٹ جاتے ہیں
کبھی بکھرا نہیں کرتے
تری خاطر تری راہ سے
کبھی گزرا نہیں کرتے
حقیقت زندگی کی ہم
کبھی پوچھا نہیں کرتے
 

الف عین

لائبریرین
کبھی تم سے بچھڑنے کا​
تو ہم وعدہ نہیں کرتے​
دوسرے مصرع میں ’تو‘ کی ضرورت؟ ہم کو پہلے مصرع میں لاؤ تو دوسرا مصرع یوں ممکن ہے ’کوئی وعدہ‘ یا ’ہم اب وعدہ‘​
نئے اشعار میں بھی کوئی خاص بات نہیں ہے، بس اوزان پورے کر دئے گئے ہیں۔ بلکہ اس میں تو وہ بھی نہیں​
تری خاطر تری راہ سے​
کبھی گزرا نہیں کرتے​
یہاں ’رہ‘ ضروری ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’تری خاطر کیوں؟‘​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کبھی تم سے بچھڑنے کا​
تو ہم وعدہ نہیں کرتے​
دوسرے مصرع میں ’تو‘ کی ضرورت؟ ہم کو پہلے مصرع میں لاؤ تو دوسرا مصرع یوں ممکن ہے ’کوئی وعدہ‘ یا ’ہم اب وعدہ‘​
ہم اب وعدہ نہیں کرتے
اس میں ہم کیا کے وزن پہ ہے۔
نئے اشعار میں بھی کوئی خاص بات نہیں ہے، بس اوزان پورے کر دئے گئے ہیں۔​
آپ بالکل درست ہیں استادِ محترم، میں بس ویسے ہی مشقِ سخن کر رہا تھا اوزان پہ۔ اسی لئے اس کو بے تکی غزل کہا ہے۔
بلکہ اس میں تو وہ بھی نہیں​
تری خاطر تری راہ سے​
کبھی گزرا نہیں کرتے​
یہاں ’رہ‘ ضروری ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ’تری خاطر کیوں؟‘​
تری خاطر اس لئے کہ کہیں ہمارے گزرنے سے محبوب کو تکلیف نہ ہو، لہٰذا ہم اس کی خاطر اس کی راہ سے گزرتے بھی نہیں ہیں۔
 
Top