کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی۔۔!

ملک حبیب

محفلین
حضرت پیر نصیر الدین نصیر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ گولڑہ شریف کی غزل
"مری زیست پُر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی"
"کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی"
کی زمین میں کہی گئی مجھ ناچیز کی ایک غزل صاحبان ذوق کی نذر۔

اُسے دِل جَلوں سے رغبت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
دِلِ بے وفا میں چاہت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

یہاں دِل یہ جل رہا ہے نہیں کچھ خبر وہاں پر
اُسے دِلبری سے فُرصت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

کوئی جا کے یہ بتائے ہے مریضِ ہِجر مرتا
اُسے پوچھنے کی ہِمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تِرا نام چین اپنا، تِرا عِشق اپنی دولت
تِرے ذِکر سے فراغت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

کی جو عرضِ شوق میں نے مِری عرض سُن کے بولے
مجھے اور تِری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

تِرے در کا اِک گدا ہوں تِرے شوق میں فنا ہوں
مجھے خواہشِ حکومت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

مجھے دوستوں نے لُوٹا مجھے زِندگی نے مارا
مِرے دشمنوں میں ہمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

مِرا نام سُن کے بولے کوئی جا کے اس سے کہہ دے
تِرے واسطے مُروت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

سَرِ حشر بھی تُمہارا یہ حبیب نام لے گا
اِسے بُھولنے کی عادت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

کلام ملک حبیب
 
Top