نمرہ
محفلین
ایک اور غزل جسے اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک جگہ میں نے اقبال کا ایک مصرعہ جوڑنے کی کوشش کی ہے، اگر جوڑ صحیح نہیں بیٹھا تو فورآ سے پیشتر اسے واپس لینے پر تیار ہوں۔
کبھی تھے فاصلے، اب تو فقط کم ہوتے جاتے ہیں
کہ دانش اور جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں
دلِ بےتاب سہ سکتا نہیں ازبسکہ خاموشی
نوائے عشق سے وہ اور برہم ہوتے جاتے ہیں
یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ساری دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں اپنے ہمدم ہوتے جاتے ہیں
نہیں حاجت ادا کرنے کی حرفِ آرزو لب سے
ہمارے اشک خود ہی قصۂ غم ہوتے جاتے ہیں
خبر تو لے ارے ظالم پلٹ کر اپنے کشتوں کی
سنا ہے تیرے بسمل دم سے بے دم ہوتے جاتے ہیں
اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ ہم فقیروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں
سمیٹے بیٹھے ہیں ہم کارِ دنیا کیا سبھی اب کے
جو محوِ فکرِ انجامِ دو عالم ہوتے جاتے ہیں؟
وہ سیارہ کہ جس کو آسماں پر دیکھ ڈرتے تھے
وہاں بھی ثبت نقشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں
بدلتے رہتے ہیں دل کے صنم خانے میں بت پیہم
' تراشیدم، پرستیدم، شکستم ' ہوتے جاتے ہیں
تماشا ہے کہ جوں جوں اپنی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں
جہانِ رنگ و بو کے رنگ مدھم ہوتے جاتے ہیں
شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جس دن سے
خود اپنی دسترس میں کم سے کم ہم ہوتے جاتے ہیں
کہ دانش اور جنوں آپس میں مدغم ہوتے جاتے ہیں
دلِ بےتاب سہ سکتا نہیں ازبسکہ خاموشی
نوائے عشق سے وہ اور برہم ہوتے جاتے ہیں
یہ کس آزار نے تنہا کیا ہے ساری دنیا میں
یہ اکھڑے اکھڑے سے کیوں اپنے ہمدم ہوتے جاتے ہیں
نہیں حاجت ادا کرنے کی حرفِ آرزو لب سے
ہمارے اشک خود ہی قصۂ غم ہوتے جاتے ہیں
خبر تو لے ارے ظالم پلٹ کر اپنے کشتوں کی
سنا ہے تیرے بسمل دم سے بے دم ہوتے جاتے ہیں
اڑاتے ہیں ہنسی میں داستاں وہ ہم فقیروں کی
مگر آنکھوں کے آئینے ذرا نم ہوتے جاتے ہیں
سمیٹے بیٹھے ہیں ہم کارِ دنیا کیا سبھی اب کے
جو محوِ فکرِ انجامِ دو عالم ہوتے جاتے ہیں؟
وہ سیارہ کہ جس کو آسماں پر دیکھ ڈرتے تھے
وہاں بھی ثبت نقشِ دستِ آدم ہوتے جاتے ہیں
بدلتے رہتے ہیں دل کے صنم خانے میں بت پیہم
' تراشیدم، پرستیدم، شکستم ' ہوتے جاتے ہیں
تماشا ہے کہ جوں جوں اپنی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں
جہانِ رنگ و بو کے رنگ مدھم ہوتے جاتے ہیں
شکنجے میں غمِ دوراں کے پھنس بیٹھے ہیں جس دن سے
خود اپنی دسترس میں کم سے کم ہم ہوتے جاتے ہیں