کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا - عارف امام

کاشفی

محفلین
غزل
(عارف امام)
کبھی خاک ہوئے ان قدموں کی، کبھی دل کو بچھا کر رقص کیا
اسے دیکھا خود کو بھول گئے، لہر ا لہرا کر رقص کیا

ترے ہجر کی آگ میں جلتے تھے، ہم انگاروں پر چلتے تھے
کبھی تپتی ریت پہ ناچے ہم، کبھی خود کو جلا کر رقص کیا

کیا خوب مزا تھا جینے میں، اک زخم چھپا تھا سینے میں
اس زخم کو کھرچا ناخن سے اور خون بہا کر رقص کیا

وہ جب نہ ملا محرابوں میں جسے ڈھونڈ رہے تھے خوابوں میں
سجدے سے اٹھایا سر اپنا اور ہاتھ اٹھا کر رقص کیا

کبھی تھمتی ہے کبھی چڑھتی ہے مری مستی گھٹتی بڑھتی ہے
کبھی خاموشی کبھی جھوم لئے کبھی شور مچا کر رقص کیا

سب بستی جنگل ہو آئے، مستی میں مقتل ہو آئے
وہاں جنگ لڑی خود سے ہم نے اورتیغ چلا کر رقص کیا

کہیں میرا خدا ناپید نہیں، کسی خاص جگہ کی قید نہیں
تسبیح پڑھی بت خانے میں، محراب میں آکر رقص کیا
 

اوشو

لائبریرین
کہیں میرا خدا ناپید نہیں، کسی خاص جگہ کی قید نہیں
تسبیح پڑھی بت خانے میں، محراب میں آکر رقص کیا

واہ
 

جاسمن

لائبریرین
Bohat hee khoob. Kia zabardast behar he. Abdul Hameed Adam Aur Saghir Sadwwqi ka kuch rang nazar aata he. Shareek e mehfil kerne k lie shukria.:)
 

فیصل عزیز

محفلین
یقیں سے دور ، اسیرِ گماں نظر آتے
اگر نہ ہم کو شہہِ این و آں ؐ نظر آتے

قضا نہ ہوتا جو اک دن ہمارا رقص تو ہم
درونِ مجمعِٔ سیّارگاں نظر آتے

نگاہِ یار کے صدقے ، وہ گر ہماری طرف
نہ دیکھتا تو میاں ہم کہاں نظر آتے

ہمی نے سجدے سے سر کو اٹھا لیا ورنہ
یہاں پہ رہتے ہوئے ہم وہاں نظر آتے

نہ توڑ تا مرا سائیں ؐ حدودِ وقت اگر
کسے رموز زمان و مکاں نظر آتے

خدا کا شکر کوئی آئینہ صفت ہے یہاں
ہمارے عیب ہمیں خود کہاں نظر آتے

سید عارف امام
 
Top