محمد علم اللہ
محفلین
غزل
کبھی رنگ گل سے جداہوا، کبھی خوشبو اس کی بکھر گئی
اسی انتشار حواس میں، مری زندگی بھی سنور گئی
میں اداس ہوں یہ کسے خبر، میں نہال ہوں یہ کسے پتہ
جو مری متاع حیات تھی وہ سفر میں ساری بکھر گئی
میں شجر بنا،میں ہی شاخ بھی، جو ثمر لگے تو سب آگئے
کبھی پتھروں سے نہیں کہا، مرے دل پہ جو بھی گذر گئی
کبھی رات اپنی پناہ میں مرے زخم چھیڑ کے سو گئی
کبھی دل کے ٹکڑے سمیٹتے، مری شب گزیدہ سحر گئی
وہ ملا تو رسمِ حیات بھی رہی اس کے گرد ہی گھومتی
وہ گیا تو میری ہراک روِش ، تھی جہاں وہیں پہ ٹھہر گئی
تجھے بے خبر یہ خبر نہیں،کہ تری خبر میں مری نظر
کبھی رہ گذر پہ ٹھہر گئی ، کبھی آئینے میںاتر گئی
یہ تری نگاہ کا فیض ہے، یہ ترے شباب کا رنگ ہے
مجھے کارِ گریہ ٔ شب ملا، تری عافیت میں گذر گئی
ہیں سبھی ضیاؔ سے یہ پوچھتے ، کبھی ہم میں تم میں جو چاہ تھی
اسے کس نے توڑ کے رکھ دیا، اسے لگ یہ کس کی نظر گئی
ضیاء الرحمن اصلاحی (ضیاؔ اعظمی)
کبھی رنگ گل سے جداہوا، کبھی خوشبو اس کی بکھر گئی
اسی انتشار حواس میں، مری زندگی بھی سنور گئی
میں اداس ہوں یہ کسے خبر، میں نہال ہوں یہ کسے پتہ
جو مری متاع حیات تھی وہ سفر میں ساری بکھر گئی
میں شجر بنا،میں ہی شاخ بھی، جو ثمر لگے تو سب آگئے
کبھی پتھروں سے نہیں کہا، مرے دل پہ جو بھی گذر گئی
کبھی رات اپنی پناہ میں مرے زخم چھیڑ کے سو گئی
کبھی دل کے ٹکڑے سمیٹتے، مری شب گزیدہ سحر گئی
وہ ملا تو رسمِ حیات بھی رہی اس کے گرد ہی گھومتی
وہ گیا تو میری ہراک روِش ، تھی جہاں وہیں پہ ٹھہر گئی
تجھے بے خبر یہ خبر نہیں،کہ تری خبر میں مری نظر
کبھی رہ گذر پہ ٹھہر گئی ، کبھی آئینے میںاتر گئی
یہ تری نگاہ کا فیض ہے، یہ ترے شباب کا رنگ ہے
مجھے کارِ گریہ ٔ شب ملا، تری عافیت میں گذر گئی
ہیں سبھی ضیاؔ سے یہ پوچھتے ، کبھی ہم میں تم میں جو چاہ تھی
اسے کس نے توڑ کے رکھ دیا، اسے لگ یہ کس کی نظر گئی
ضیاء الرحمن اصلاحی (ضیاؔ اعظمی)