احسان دانش کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ھیں (احسان دانش)

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ھیں
مرے بہے ھوئے آنسو جبیں پہ لائے ھیں

نہ سر گزشت سفر پوچھ مختصر یہ ھے
کہ اپنے نقش قدم ھم نے خود مٹائے ھیں

نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو
وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ھیں

اس ایک شمع سے اترے ھیں بام و در کے لباس
اس ایک لو نے بڑے " پھول بن " جلائے ھیں

یہ دوپہر ، یہ زمیں پر لپا ھوا سورج
کہیں درخت نہ دیوارو در کے سائے ھیں

کلی کلی میں ھے دھرتی کے دودھ کی خوشبو
تمام پھول اسی ایک ماں کے جائے ھیں

نطر خلاؤں پہ اور انتظار بے وعدہ
بہ ایں عمل بھی وہ آنکھوں میں جھلملائے ھیں
 

محمداحمد

لائبریرین
نہ سر گزشت سفر پوچھ مختصر یہ ہے
کہ اپنے نقش قدم ہم نے خود مٹائے ہیں

نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو
وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ہیں

اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس
اس ایک لو نے بڑے " پھول بن " جلائے ہیں

یہ دوپہر ، یہ زمیں پر لپا ہوا سورج
کہیں درخت نہ دیوارو در کے سائے ہیں

واہ واہ واہ ۔۔۔۔!

کمال کے اشعار ہیں ۔ سب کے سب۔
 
Top