اسامہ جمشید
محفلین
کبھی کچھ بھول جاتا ہوں کبھی کچھ یاد کرتا ہوں
مجھے بے چین رکھتی ہیں تری دلدار سی آنکھیں
سمجھ میں وہ تو آتا ہے سمجھ پر میں نہیں پاتا
بہت آسان چہرے پر بہت دشوار سی آنکھیں
مجھے لگتا تھا بدلو گے مگر بدلے نہیں ہو تم
وہی سنگین سا لہجہ وہی ہُشیار سی آنکھیں
اندھیرا بڑھ چلا ہے کیوں دکھائی کچھ نہیں دیتا
کہاں پر کھو گئی ہیں پھر مری لا چار سی آنکھیں
وہ تھک کر سو گئی ہیں پھر وہ اٹھ کر سو گئی ہیں پھر
بہت لاغر سے جسموں کی بہت بیمار سی آنکھیں
مجھے بھی دیکھ لیتی ہیں تجھے جب دیکھ لیتی ہیں
بہت غدّار سی نظریں بہت مکّار سی آنکھیں
وہ سارا دن ترستی ہیں وہ ساری رات روتی ہیں
کہیں مزدور لوگوں کی بڑی نادار سی آنکھیں