کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے
لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے

اب تو مجبور یا مختار گزارے چلئے
قرض جتنے ہیں محبت کے اتارے چلئے

جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دیگا
ہوکے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے

اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا
بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے

معتبر ہوتی نہیں راہ میں گزری ہوئی رات
آ گئی شامِ سفر اپنے دُوارے چلئے

ہم بھی قائل نہیں رستے کو پلٹ کر دیکھیں
ماضی ڈستا ہے تو پھر ساتھ ہمارے چلئے

دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیر
نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳

ٹیگ: فاتح محمد تابش صدیقی کاشف اختر سید عاطف علی
 
آخری تدوین:
بہت خوب جناب۔
جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دیگا
ہوکے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے

دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیر
نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے

اب تو مجبور یار مختار گزارے چلئے
یہ ر غالباً زائد ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کب تلک بھیڑ میں اوروں کے سہارے چلئے
لوگ رستے میں ہوں اتنے تو کنارے چلئے

جس نے بخشی ہے مسافت وہی منزل دیگا
ہوکے راضی برضا اُس کے اشارے چلئے

اُن کے لائق نہیں کچھ اشکِ محبت کے سوا
بھر کے دامن میں یہی چاند ستارے چلئے

دشتِ ہجراں بھی گزر جائے گا عزّت سے ظہیر
نامِ نامی اُسی رہبر کا پکارے چلئے

سبحان اللہ۔

شاندار غزل ہے ظہیر بھائی !

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
 
Top