میر کب تلک جی رکے خفا ہووے - از میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے

جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے

کاہشِ دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے

چپ کا باعث ہے بے تمنائی
کہیے کچھ بھی تو مدعا ہووے

بے کلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہووے

مر گئے ہم تو مر گئےتُو جیے
دل گرفتہ تری بَلا ہووے

عشق کیا ہے درست اے ناصح
جانے وہ جس کا دل لگا ہووے

نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میر مر رہا ہووے
 
Top