زرقا مفتی
محفلین
کب راج کرے گی خلقِ خُدا؟؟؟
پاکستان میں انتخابات کے خیر و خوبی سے انعقاد پر پاکستان کے عوام نے یقیناً سکھ کا سانس لیا ہے۔ انتخابات کے ذریعے عوام نے صدر مشرف پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ”مشرف مخالف قیادت “ کو منتخب کیا ہے۔ فلور کراسنگ کرنے والے تقریباً تمام رہنما ﺅں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ سابقہ حکومت کی ساری کابینہ کو الیکشن میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔عوام نے قاف لیگ حکومت کے ترقیاتی کاموں یا معاشی ترقی کے دعوں کے باوجود ماضی قریب کے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹ دئیے) عوام کی کمزور یاداشت یہاں بھی کام آئی) عوام نے مذہبی انتہا پسندوں کو بھی بری طرح مسترد کر دیا ہے۔جماعت ِ اسلامی کے بائیکاٹ کا ایم ایم اے کو بہت نقصان ہوا ،ایم ایم اے کو الیکشن میں صرف4۔۵ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے عوامی خواہشات یا ”حالیہ ایشوز“ کو اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا اور عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ایم ایم اے کے بائیکاٹ کا بالواسطہ فائدہ بھی مسلم لیگ نون کو ہوا ۔ پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی قومی جماعت کے طور پر اُبھری مگر توقعات کے برعکس وہ ”کلین سویپ “ کرنے میں ناکام رہی ہے ۔بے نظیر کی ہلاکت کے بعد جس ہمدردی کے ووٹ کی توقع کی جا رہی تھی وہ اسے حاصل نہیں ہو سکا۔ حکومت بنانے کے لئے اسے دوسری جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی ۔
سیاسی جوڑ توڑ
انتخابات کے نتیجے میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ اس لئے حکومت بنانے کیلئے دو یا دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے والی جماعتیں اپنے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون
مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل مطالبات پیش کر سکتی ہے:۔
۱۔نئے صدر کا انتخاب
۲۔آئین کی 12 اکتوبر 1999 سے پہلے کی سطح پر بحالی(یعنی دو بار سے زیادہ وزیرِ اعظم بننے کی پابندی کو ختم کرنا)
۳۔پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ
۴۔عدلیہ کی بحالی
پیپلز پارٹی کی قیادت کی پاکستان واپسی ایک مفاہمتی آرڈینینس کے نتیجے میں ہوئی ہے ۔ اس کے پسِ پردہ صدر مشرف سے انکی مفاہمت کچھ دنوں میں سامنے آئے گی۔اس لئے نئے صدر کے انتخاب اور عدلیہ کی بحالی کے مطالبات کوپیپلز پارٹی قیادت کی پذیرائی ملنے کے امکانات کم ہیں۔ دو بار وزیرِاعظم بننے پر پابندی ہٹانے میں پیپلز پارٹی کو کم ہی دلچسپی ہو گی۔ مسلم لیگ نون کو حکومت میں شامل ہونے کےلئے اپنے بیشتر اہم مطالبات سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔مسلم لیگ نون کی قیادت حالات کے مطابق ا پنے موقف میں تبدیلی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اس لئے وہ کس وقت کس مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، قاف لیگ اور اے این پی
اگر مفاہمتی آرڈینینس کے پسِ پردہ مفاہمت کو مدِ نظر رکھا جائے تو پیپلز پارٹی قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ایسے حکومتی اتحادمیں پیپلز پارٹی اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہو گی اور اتحادی مفاہمت کرنے پر مجبور۔ مزید یہ کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی انکے حصے میں آ سکتی ہے۔ایم کیو ایم سندھ میں شراکتِ اقتدار پر مجبور ہو گی اس کے بدلے وہ کراچی اور حیدرآباد کی ضلعی حکومتیںبرقرار رکھنے کا وعدہ اور وفاق کی وزارتیں طلب کر سکتے ہیں۔صدر مشرف اور انکی حامی قوتیں ایسے اتحاد کے حق میں ہونگی۔
نئی حکومت سے عوام کی توقعات
نئی حکومت سے عوام کی بہت سی توقعات ہیں۔ جن میں درج ذیل توقعات سرِ فہرست ہیں
۱۔ مہنگائی میں کمی
۲۔ عدلیہ کی آزادی و بحالی
۳۔ بجلی اور گیس کے بحران پر قابو
۴۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں امن
نئی حکومت کو وراثت میں بہت سے مسائل ملیں گے ۔ اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی عدم موجودگی میں بہت سی عوامی توقعات کا پورا ہونا محال ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میںتقریباً ۰۷فیصد اضافہ ہو چکا ہے
تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے بعدعوام کو مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سامناکر ہو گا۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی مانگ کے مقابلے میں پیداوار کم ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں اضا فے کی توقع ہے۔ فی الحال نہ تو کوئی نیا ڈیم زیرِ تعمیر ہے اور نہ ہی کسی اور متبادل پاور پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے نئی حکوت کوئی نیا منصوبہ شروع بھی کرے گی تو اس کے ثمرات چار پانچ سال بعد ہی سامنے آئیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نئی حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں۔ سرحد میں اے این پی اور بلوچستان میں قاف لیگ کو اکثریت ملنے کی وجہ سے حکومتی موقف قائم رہے گا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اتحادی قوتوں کا حامی رہے گا۔نئی حکومت کا عوامی امنگوں پر پورا اترنا بہت مشکل ہے۔ عوام کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے
کب راج کرے گی خلقِ خُدا؟؟
پاکستان میں انتخابات کے خیر و خوبی سے انعقاد پر پاکستان کے عوام نے یقیناً سکھ کا سانس لیا ہے۔ انتخابات کے ذریعے عوام نے صدر مشرف پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ”مشرف مخالف قیادت “ کو منتخب کیا ہے۔ فلور کراسنگ کرنے والے تقریباً تمام رہنما ﺅں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ سابقہ حکومت کی ساری کابینہ کو الیکشن میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔عوام نے قاف لیگ حکومت کے ترقیاتی کاموں یا معاشی ترقی کے دعوں کے باوجود ماضی قریب کے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ووٹ دئیے) عوام کی کمزور یاداشت یہاں بھی کام آئی) عوام نے مذہبی انتہا پسندوں کو بھی بری طرح مسترد کر دیا ہے۔جماعت ِ اسلامی کے بائیکاٹ کا ایم ایم اے کو بہت نقصان ہوا ،ایم ایم اے کو الیکشن میں صرف4۔۵ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی قیادت نے عوامی خواہشات یا ”حالیہ ایشوز“ کو اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا اور عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ایم ایم اے کے بائیکاٹ کا بالواسطہ فائدہ بھی مسلم لیگ نون کو ہوا ۔ پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی قومی جماعت کے طور پر اُبھری مگر توقعات کے برعکس وہ ”کلین سویپ “ کرنے میں ناکام رہی ہے ۔بے نظیر کی ہلاکت کے بعد جس ہمدردی کے ووٹ کی توقع کی جا رہی تھی وہ اسے حاصل نہیں ہو سکا۔ حکومت بنانے کے لئے اسے دوسری جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی ۔
سیاسی جوڑ توڑ
انتخابات کے نتیجے میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ اس لئے حکومت بنانے کیلئے دو یا دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے والی جماعتیں اپنے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کریں گی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون
مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے کے لئے مندرجہ ذیل مطالبات پیش کر سکتی ہے:۔
۱۔نئے صدر کا انتخاب
۲۔آئین کی 12 اکتوبر 1999 سے پہلے کی سطح پر بحالی(یعنی دو بار سے زیادہ وزیرِ اعظم بننے کی پابندی کو ختم کرنا)
۳۔پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ
۴۔عدلیہ کی بحالی
پیپلز پارٹی کی قیادت کی پاکستان واپسی ایک مفاہمتی آرڈینینس کے نتیجے میں ہوئی ہے ۔ اس کے پسِ پردہ صدر مشرف سے انکی مفاہمت کچھ دنوں میں سامنے آئے گی۔اس لئے نئے صدر کے انتخاب اور عدلیہ کی بحالی کے مطالبات کوپیپلز پارٹی قیادت کی پذیرائی ملنے کے امکانات کم ہیں۔ دو بار وزیرِاعظم بننے پر پابندی ہٹانے میں پیپلز پارٹی کو کم ہی دلچسپی ہو گی۔ مسلم لیگ نون کو حکومت میں شامل ہونے کےلئے اپنے بیشتر اہم مطالبات سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔مسلم لیگ نون کی قیادت حالات کے مطابق ا پنے موقف میں تبدیلی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اس لئے وہ کس وقت کس مطالبے سے پیچھے ہٹ جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، قاف لیگ اور اے این پی
اگر مفاہمتی آرڈینینس کے پسِ پردہ مفاہمت کو مدِ نظر رکھا جائے تو پیپلز پارٹی قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ایسے حکومتی اتحادمیں پیپلز پارٹی اپنی شرائط منوانے کی پوزیشن میں ہو گی اور اتحادی مفاہمت کرنے پر مجبور۔ مزید یہ کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ بھی انکے حصے میں آ سکتی ہے۔ایم کیو ایم سندھ میں شراکتِ اقتدار پر مجبور ہو گی اس کے بدلے وہ کراچی اور حیدرآباد کی ضلعی حکومتیںبرقرار رکھنے کا وعدہ اور وفاق کی وزارتیں طلب کر سکتے ہیں۔صدر مشرف اور انکی حامی قوتیں ایسے اتحاد کے حق میں ہونگی۔
نئی حکومت سے عوام کی توقعات
نئی حکومت سے عوام کی بہت سی توقعات ہیں۔ جن میں درج ذیل توقعات سرِ فہرست ہیں
۱۔ مہنگائی میں کمی
۲۔ عدلیہ کی آزادی و بحالی
۳۔ بجلی اور گیس کے بحران پر قابو
۴۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں امن
نئی حکومت کو وراثت میں بہت سے مسائل ملیں گے ۔ اور پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی عدم موجودگی میں بہت سی عوامی توقعات کا پورا ہونا محال ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میںتقریباً ۰۷فیصد اضافہ ہو چکا ہے
تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے بعدعوام کو مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سامناکر ہو گا۔ بجلی اور گیس کی بڑھتی ہوئی مانگ کے مقابلے میں پیداوار کم ہونے کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں اضا فے کی توقع ہے۔ فی الحال نہ تو کوئی نیا ڈیم زیرِ تعمیر ہے اور نہ ہی کسی اور متبادل پاور پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے نئی حکوت کوئی نیا منصوبہ شروع بھی کرے گی تو اس کے ثمرات چار پانچ سال بعد ہی سامنے آئیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر نئی حکومت کے موقف میں کوئی تبدیلی آنے کا امکان نہیں۔ سرحد میں اے این پی اور بلوچستان میں قاف لیگ کو اکثریت ملنے کی وجہ سے حکومتی موقف قائم رہے گا، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اتحادی قوتوں کا حامی رہے گا۔نئی حکومت کا عوامی امنگوں پر پورا اترنا بہت مشکل ہے۔ عوام کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے
کب راج کرے گی خلقِ خُدا؟؟