کب کوئی جان وار دیتا ہے ۔ ایک اور غزل

درد کب اختیار دیتا ہے
چند سانسیں ادھار دیتا ہے

دل تری یاد کے سرور میں گم
ساری فکریں اتار دیتا ہے

آج بھی لمس اس کی یادوں کا
میری شامیں نکھار دیتا ہے

آہ و گریہ فغاں یہی کچھ بس
کب کوئی جان وار دیتا ہے

چیر لیتا ہے بیج سینے کو
تب چمن کو بہار دیتا ہے

شہر اپنے سکوت کی لے میں
اک صدا بار بار دیتا ہے

کیوں کسی اور در سے میں مانگوں
مجھ کو پروردگار دیتا ہے

غازہِ خونِ عاشقاں، اے چمن
تیرا دامن سنوار دیتا ہے

حسرتیں دل سے نوچ ڈالو شکیل
زہر یہ جی کو مار دیتا ہے

استادِ محترم
الف عین اور دیگر اساتذہ و احباب کی نذر
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوب! شکیل بھائی ، مقطع کو آپ کی مزید توجہ درکار ہے ۔
حسرتیں دل سے نوچ ڈالو شکیل
زہر یہ جی کو مار دیتا ہے
پہلے مصرع میں حسرتیں جمع کا صیغہ ہے جبکہ دوسرے میں زہر بطور صیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے ۔ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے ۔
 
خوب! شکیل بھائی ، مقطع کو آپ کی مزید توجہ درکار ہے ۔
حسرتیں دل سے نوچ ڈالو شکیل
زہر یہ جی کو مار دیتا ہے
پہلے مصرع میں حسرتیں جمع کا صیغہ ہے جبکہ دوسرے میں زہر بطور صیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے ۔ ٹھیک نہیں لگ رہا ہے ۔
رہنمائی کا شکریہ،
نظرثانی کرتا ہوں،
 
Top