کب کہا میں نے وادی میں ٹھہرنے دو مجھے
میں تو پنچھی ہوں ، پہاڑوں سے گزرنے دو مجھے
بند کمرے کو بھلا کس طرح منزل سمجھوں
میں ہوں اک چیخ ، فضاؤں میں بکھرنے دو مجھے
جانے وہ کونسا منظر ہے پسِ گرد و غبار
دھول کے گہرے سمندر میں اترنے دو مجھے
میں بھی زخمی ہوں بہت رقص گہِ طوفان میں
اے کٹے پیڑو ! کہیں پاؤں تو دھرنے دو مجھے
دوڑتے قدموں کا ہیجان کبھی ختم تو ہو
نقشِ پامال سمجھ کر ہی ابھرنے دو مجھے
میں تو اس دور کا گوتم ہوں ، کسی جھاڑی میں
سایہ ابر کو تکتے ہوئے مرنے دو مجھے
بھید کھل جائے گا خوابوں کی بھی قزّاقی کا
دامن وہم و گماں چاک تو کرنے دو مجھے