محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
اس بات کا انکشاف جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ سال دوئم کے تحت کئے جانے والے سروے میں ہوا۔
سروے میں 95 فیصد طلبا کا کہنا تھا کہ انہیں کتابوں سے دلچسپی ہے ہی نہیں بلکہ وہ ضرورت پڑنے پر ہی کتابوں سے مدد لیتے ہیں اور امتحانات کے دنوں میں ہی کتابیں پڑھتے ہیں، جبکہ کتابوں سے محبّت رکھنے والے طلبا کی تعداد صرف 5 فیصد نظر آئی ۔
اس سوال پر کہ انہوں نے آخری بار کوئی بھی کتب نصابی یا غیر نصابی کب پڑھی؟جس کے جواب میں 90 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخری بار نصابی کتب امتحانات کے وقت پڑھی تھیں جبکہ غیر نصابی کا تو یاد بھی نہیں کہ کب پڑھی تھی۔ صرف 10 فیصد لوگوں نے غیر نصابی کتابوں کے مطالعےکا شوق ظاہر کیا۔
سروے میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ65 فیصد لوگ اخبارات پڑھتے ہی نہیں ہیں اور 30 فیصد اردو اخبارات کو پسند کرتے ہیں جبکہ 5 فیصد لوگ انگریزی اخبارات پڑھنا پسند کرتے ہیں۔
جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سوشل میڈیا پر دی گئی معلومات سے مطمئن ہوتے ہیں یا پھر اخبارات کی؟جواب میں ملا جلا رد عمل دیکھنے کو ملا۔ 25 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیاپر چونکہ خبر فوری طور پر مل جاتی ہے اور کسی بھی قسم کی جانبداری کے بغیر دی جاتی ہے جبکہ موجودہ حالات میں اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بنیاد پر خبر شایع کرتے ہیں، جبکہ 75فیصد لوگ اخبارات کے تصدیق شدہ مواد اور خبروں سے مطمئن ہوتے ہیں۔
سروے میں طلبہ سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ انکی نظر میں کتابوں اور مطالعے کا شوق ختم ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ جس کے جواب میں اکثریت نے سوشل میڈیا کواس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے بتایا کہ لوگوں میں مادہ پرستی سرائیت کر چکی ہے اور اب طلبا تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ صرف ڈگری کے حصول کیلئے کالجز اور جامعات کا رخ کرتے ہیں۔
سید محمد عسکری
روزنامہ جنگ