سیما علی
لائبریرین
کتابیں کچرے کے ڈھیر پر
رضا علی عابدی
26 مارچ ، 2021
یہ سنہ ساٹھ کی بات ہے جب برطانیہ جانے والے تارکین وطن سیلاب کی صورت انگلستان کی طر ف چل پڑے تھے اور لوگ کہا کرتے تھے کہ کراچی کے ایک نکّڑ پر بیٹھ کر جوتے گانٹھنے والا موچی تک لندن چلا گیا تھا، اُن ہی دنوں میرے کئی ہم عمر دوست بھی پاکستان سے سدھار گئے۔ وہاں جاکر کوئی کسی بیکری میں کریم رول میں پچکاری سے کریم بھرنے لگا اور کوئی بجلی کے بلب بنانے والی فیکٹری میں بلب رنگنے کے کام پر مامور ہو گیا۔انہیں ولایت جاکر گھر کس طرح یاد آیا ہوگا اس کا اظہار اس بات سے ہوتا تھا کہ ان کے خط باقاعدگی سے آتے تھے۔کچھ عرصے بعد ان کے خطوں میں یہ دل چسپ فرمائش آئی کہ خدا کے لئے کچھ اردو کتابیں بھیجو۔کتابوں کو ترس گئے ہیں، شفیق الرحمان یا منٹو کے افسانے بھیجو۔ مجھے ان کا اس طرح اردو کتابیں مانگناہمیشہ یاد رہے گا۔ اب تو دو ایک کے سوا وہ سارے دوست اﷲ کو پیارے ہوئے۔جب وہ ایک کے بعد ایک دنیا سے سدھارنے لگے تو مجھے او ر باتوں کے علاوہ یہ خیال ستانے لگا کہ ان کے مرجانے کے بعد ان کی اردو کتابوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔اس بات کاذکر اپنے احباب سے کیا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔ یہ معاملہ صرف میرے ہم جماعت دوستوں ہی کا نہیں، یہ مسئلہ سارے کے سارے اہل ذوق خواتین اور حضرات کا ہے۔مسئلہ یہ ہے اور سنگین ہے کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال تک کتابیں جمع کرنے والے لوگ عمریں پوری کرکے جہان فانی کوچھوڑ کے چلے جارہے ہیں، ان کے پیچھے ان کی عمر بھر کی جمع کی ہوئی کتابوں کے ذخیرے کا کیا حشر ہوگا۔کیا ان کے بال بچے، ان کی بیویاں، بہو بیٹیاں اور دوست احباب ان کے خزانے کے محافظ بننے پرآمادہ ہوں گے۔ کسی نے کہا کہ ان کے دوست ساری کتابیں لے جائیں گے تو سوال یہ اٹھا کہ دوستوں کا اپنا ذخیرہ سرکا کر گنجائش نکالی جائے تو یہ کتابیں وہاں سما پائیں گی۔ دوستوں کے بال بچوں نے کتابیں لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ یہاں پہلے ہی سینکڑوں کتابیں گرد چاٹ رہی ہیں، آپ اپنی یہ سیلابِ بلا کسی اور کے گھر لے جائیے۔اور یہ مسئلہ صرف انگلستان، یورپ ، امریکہ یا کینیڈا ہی کا نہیں، یہ مسئلہ دنیا بھر کا ہے۔ جہاں بھی اہل ذوق حضرات نے ساری عمر لگا کر کتابیں جمع کیں، ان کی آنکھ بند ہوتے ہی کتابوں پر بھی مردنی چھا گئی اور گھر والے ایک دوسرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھنے لگے کہ اب کیا کریں۔ کراچی کا حال تو ہم سے چھپا نہیں کہ کتنے ہی گھرانوں نے ردّی پیپر خریدنے والوں کو بلا کر یہ کتابیں ان کے حوالے کردیں جو انہیں خوشی خوشی لے گئے اور ہر اتوار کو لگنے والے کتاب بازار میں فٹ پاتھ کی دکان لگا کر یہ کتابیں سستے داموں بیچ دیں۔ یہ کہانی صرف کراچی ہی کی نہیں، تمام علاقوں کی ہے۔ لوگ بوڑھے ہوگئے ہیں،کمر دُہری ہوگئی ہے، بینائی رخصت ہوا چاہتی ہے۔سماعت کا بھی چل چلاؤ ہے، اور دیوار پر لگائی ہوئی شیلف کی شیلف کتابوں کے بوجھ سے دہری ہوئی جارہی ہیں جن پر زمانے کی گرد کی تہیں جم رہی ہیں ۔اور بزرگ اپنے اس خزانے کو حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ اس کا کیا بنے گا؟یہ کتابیں جمع کرنا بھی ایک عارضہ ہے۔ جسے لگا مرض کی طرح چمٹ گیا۔ آج مجھے ایک بزرگ یاد آرہے ہیں جو پاکستان میں تربیلا ڈیم کے قریب ایک پرانے بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں۔ ان کا یہ عالم ہے کہ کہتے ہیں کہ جو کتاب کہیں نہ ملے ان بزرگ کے پاس مل جاتی ہے۔ وہ بھی کتاب کی تلاش میں سرگرداں دیوانوں کو کتابوں کی فوٹو کاپیاں بھیج رہے تھے۔مجھے اندازہ تھا کہ قدرت نے ان کی عمر کا سلسلہ دراز کیا ہوا ہے مگر کب تک۔ لکھنؤ میں نادر آغا جیسے بزرگوں کو دیکھ آیا ہوں جن کی آنکھیں بند ہونے کو تھیں اور ان کے آنسو بھی خشک ہو چلے تھے۔ انہیں بس یہی ایک غم کھائے جارہا تھا کہ ا ن کی جمع کی ہوئی نادر اور نایاب کتابوں کا کیا حشر ہو گا۔ ان کے بیٹوں نے پہلے ہی اعلان کردیا کہ انہیں فرصت نہیں ہے۔
خود میں اپنا ذخیرہ پاکستان میں بہاول پور کی ایک یونی ورسٹی کو تحفے کے طور پر بھیج چکا ہوں۔ کراچی میں میری نوجوانی کے دوست غازی صلاح الدین کے فلیٹ میں ہزارہا کتابیں قطار در قطار صف آرا ہیں۔ ایک روز میں نے دربارِ اکبری کا قدیم نسخہ بڑے اشتیاق سے نکالا۔ اس پر کراچی کے سمندری علاقے کی گردتہوں کی شکل میں جمی ہوئی تھی۔ میں نے غازی سے پوچھا کہ یہ کتابیں کہاں سمائیں گی، ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی شخص ہے جو پرانی کتابیں خریدتا ہے، وہ ان کے گھر کے چکر کاٹ رہا ہے۔میں اپنے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی بھاری بھرکم کتابیں شہر کے سرگرم اور فعال کتب خانوں کو عطیہ کردی ہیں ۔ اور اب وہ چین سے ہیں۔(دوست بھی اور کتابیں بھی)۔
ادھر جس رفتار سے لوگوں کے جان سے گزر جانے کی خبریں آرہی ہیں، رفتگان کے ذاتی کتب خانوں کے سر سے سایہ بھی اسی تواتر سے اٹھ رہا ہے۔برطانیہ میں گھر کا کوڑا کباڑ پلاسٹک کے کالے تھیلوں میں بھر کر پھینکا جاتا ہے،ہمیں کچھ ایسے احباب کا علم ہے جن کی کتابوں کا ذخیرہ ان کالے تھیلوں کا کفن پہنا کر ٹھکانے لگایا گیا ہے۔مشہور معروف آغا حسن عابدی (مجھ سے کوئی تعلق نہیں)کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی قلعہ نما حویلی سے قیمتی کتابوں کا خزانہ ان ہی کالے تھیلوں میں ٹھکانے لگا تھا۔
میری حقیر سی رائے ہے کہ مغربی ملکوں اور ہندوستان وپاکستان کے درمیان رابطے کا ایک پُل قائم کیا جائے۔ اپنی طرف کے وہ ادارے اور کتب خانے جو یہ کتابیں لینے کے لئے تیا ر ہوں، وہ آگے آئیں۔ ان کی فہرست تیار کی جائے اور اب تو یہاں پارسل سروس کا اچھا اور سستا نظام کام کر رہا ہے، لوگ اس سروس والوں کو بلا کر کتابوں کے پارسل ان کے ہاتھوں اداروں کو بھجوا دیں۔ یہ لو گ سارے پارسل اداروں او ر کتب خانوں کی دہلیز تک پہنچا دیتے ہیں۔
اس بارے میں جلد کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو گلی گلی ادبی انجمنیں اور تنظیمیں سرگرم ہیں یہ سار ا وقت غزل خوانی میں نہ گنوائیں اور علم و ادب کے ان خزینوںکو بہتر ٹھکانا فراہم کرنے کا کچھ ٹھوس کام بھی کریں۔
اگر آپ نے لفظ ’کارِ ثواب‘ سنا ہے تو اسی کو کارِثواب کہتے ہیں۔
کتابیں کچرے کے ڈھیر پر
رضا علی عابدی
26 مارچ ، 2021
یہ سنہ ساٹھ کی بات ہے جب برطانیہ جانے والے تارکین وطن سیلاب کی صورت انگلستان کی طر ف چل پڑے تھے اور لوگ کہا کرتے تھے کہ کراچی کے ایک نکّڑ پر بیٹھ کر جوتے گانٹھنے والا موچی تک لندن چلا گیا تھا، اُن ہی دنوں میرے کئی ہم عمر دوست بھی پاکستان سے سدھار گئے۔ وہاں جاکر کوئی کسی بیکری میں کریم رول میں پچکاری سے کریم بھرنے لگا اور کوئی بجلی کے بلب بنانے والی فیکٹری میں بلب رنگنے کے کام پر مامور ہو گیا۔انہیں ولایت جاکر گھر کس طرح یاد آیا ہوگا اس کا اظہار اس بات سے ہوتا تھا کہ ان کے خط باقاعدگی سے آتے تھے۔کچھ عرصے بعد ان کے خطوں میں یہ دل چسپ فرمائش آئی کہ خدا کے لئے کچھ اردو کتابیں بھیجو۔کتابوں کو ترس گئے ہیں، شفیق الرحمان یا منٹو کے افسانے بھیجو۔ مجھے ان کا اس طرح اردو کتابیں مانگناہمیشہ یاد رہے گا۔ اب تو دو ایک کے سوا وہ سارے دوست اﷲ کو پیارے ہوئے۔جب وہ ایک کے بعد ایک دنیا سے سدھارنے لگے تو مجھے او ر باتوں کے علاوہ یہ خیال ستانے لگا کہ ان کے مرجانے کے بعد ان کی اردو کتابوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔اس بات کاذکر اپنے احباب سے کیا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔ یہ معاملہ صرف میرے ہم جماعت دوستوں ہی کا نہیں، یہ مسئلہ سارے کے سارے اہل ذوق خواتین اور حضرات کا ہے۔مسئلہ یہ ہے اور سنگین ہے کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ سال تک کتابیں جمع کرنے والے لوگ عمریں پوری کرکے جہان فانی کوچھوڑ کے چلے جارہے ہیں، ان کے پیچھے ان کی عمر بھر کی جمع کی ہوئی کتابوں کے ذخیرے کا کیا حشر ہوگا۔کیا ان کے بال بچے، ان کی بیویاں، بہو بیٹیاں اور دوست احباب ان کے خزانے کے محافظ بننے پرآمادہ ہوں گے۔ کسی نے کہا کہ ان کے دوست ساری کتابیں لے جائیں گے تو سوال یہ اٹھا کہ دوستوں کا اپنا ذخیرہ سرکا کر گنجائش نکالی جائے تو یہ کتابیں وہاں سما پائیں گی۔ دوستوں کے بال بچوں نے کتابیں لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ یہاں پہلے ہی سینکڑوں کتابیں گرد چاٹ رہی ہیں، آپ اپنی یہ سیلابِ بلا کسی اور کے گھر لے جائیے۔اور یہ مسئلہ صرف انگلستان، یورپ ، امریکہ یا کینیڈا ہی کا نہیں، یہ مسئلہ دنیا بھر کا ہے۔ جہاں بھی اہل ذوق حضرات نے ساری عمر لگا کر کتابیں جمع کیں، ان کی آنکھ بند ہوتے ہی کتابوں پر بھی مردنی چھا گئی اور گھر والے ایک دوسرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھنے لگے کہ اب کیا کریں۔ کراچی کا حال تو ہم سے چھپا نہیں کہ کتنے ہی گھرانوں نے ردّی پیپر خریدنے والوں کو بلا کر یہ کتابیں ان کے حوالے کردیں جو انہیں خوشی خوشی لے گئے اور ہر اتوار کو لگنے والے کتاب بازار میں فٹ پاتھ کی دکان لگا کر یہ کتابیں سستے داموں بیچ دیں۔ یہ کہانی صرف کراچی ہی کی نہیں، تمام علاقوں کی ہے۔ لوگ بوڑھے ہوگئے ہیں،کمر دُہری ہوگئی ہے، بینائی رخصت ہوا چاہتی ہے۔سماعت کا بھی چل چلاؤ ہے، اور دیوار پر لگائی ہوئی شیلف کی شیلف کتابوں کے بوجھ سے دہری ہوئی جارہی ہیں جن پر زمانے کی گرد کی تہیں جم رہی ہیں ۔اور بزرگ اپنے اس خزانے کو حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ اس کا کیا بنے گا؟یہ کتابیں جمع کرنا بھی ایک عارضہ ہے۔ جسے لگا مرض کی طرح چمٹ گیا۔ آج مجھے ایک بزرگ یاد آرہے ہیں جو پاکستان میں تربیلا ڈیم کے قریب ایک پرانے بوسیدہ مکان میں رہتے ہیں۔ ان کا یہ عالم ہے کہ کہتے ہیں کہ جو کتاب کہیں نہ ملے ان بزرگ کے پاس مل جاتی ہے۔ وہ بھی کتاب کی تلاش میں سرگرداں دیوانوں کو کتابوں کی فوٹو کاپیاں بھیج رہے تھے۔مجھے اندازہ تھا کہ قدرت نے ان کی عمر کا سلسلہ دراز کیا ہوا ہے مگر کب تک۔ لکھنؤ میں نادر آغا جیسے بزرگوں کو دیکھ آیا ہوں جن کی آنکھیں بند ہونے کو تھیں اور ان کے آنسو بھی خشک ہو چلے تھے۔ انہیں بس یہی ایک غم کھائے جارہا تھا کہ ا ن کی جمع کی ہوئی نادر اور نایاب کتابوں کا کیا حشر ہو گا۔ ان کے بیٹوں نے پہلے ہی اعلان کردیا کہ انہیں فرصت نہیں ہے۔
خود میں اپنا ذخیرہ پاکستان میں بہاول پور کی ایک یونی ورسٹی کو تحفے کے طور پر بھیج چکا ہوں۔ کراچی میں میری نوجوانی کے دوست غازی صلاح الدین کے فلیٹ میں ہزارہا کتابیں قطار در قطار صف آرا ہیں۔ ایک روز میں نے دربارِ اکبری کا قدیم نسخہ بڑے اشتیاق سے نکالا۔ اس پر کراچی کے سمندری علاقے کی گردتہوں کی شکل میں جمی ہوئی تھی۔ میں نے غازی سے پوچھا کہ یہ کتابیں کہاں سمائیں گی، ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی شخص ہے جو پرانی کتابیں خریدتا ہے، وہ ان کے گھر کے چکر کاٹ رہا ہے۔میں اپنے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنی بھاری بھرکم کتابیں شہر کے سرگرم اور فعال کتب خانوں کو عطیہ کردی ہیں ۔ اور اب وہ چین سے ہیں۔(دوست بھی اور کتابیں بھی)۔
ادھر جس رفتار سے لوگوں کے جان سے گزر جانے کی خبریں آرہی ہیں، رفتگان کے ذاتی کتب خانوں کے سر سے سایہ بھی اسی تواتر سے اٹھ رہا ہے۔برطانیہ میں گھر کا کوڑا کباڑ پلاسٹک کے کالے تھیلوں میں بھر کر پھینکا جاتا ہے،ہمیں کچھ ایسے احباب کا علم ہے جن کی کتابوں کا ذخیرہ ان کالے تھیلوں کا کفن پہنا کر ٹھکانے لگایا گیا ہے۔مشہور معروف آغا حسن عابدی (مجھ سے کوئی تعلق نہیں)کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی قلعہ نما حویلی سے قیمتی کتابوں کا خزانہ ان ہی کالے تھیلوں میں ٹھکانے لگا تھا۔
میری حقیر سی رائے ہے کہ مغربی ملکوں اور ہندوستان وپاکستان کے درمیان رابطے کا ایک پُل قائم کیا جائے۔ اپنی طرف کے وہ ادارے اور کتب خانے جو یہ کتابیں لینے کے لئے تیا ر ہوں، وہ آگے آئیں۔ ان کی فہرست تیار کی جائے اور اب تو یہاں پارسل سروس کا اچھا اور سستا نظام کام کر رہا ہے، لوگ اس سروس والوں کو بلا کر کتابوں کے پارسل ان کے ہاتھوں اداروں کو بھجوا دیں۔ یہ لو گ سارے پارسل اداروں او ر کتب خانوں کی دہلیز تک پہنچا دیتے ہیں۔
اس بارے میں جلد کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو گلی گلی ادبی انجمنیں اور تنظیمیں سرگرم ہیں یہ سار ا وقت غزل خوانی میں نہ گنوائیں اور علم و ادب کے ان خزینوںکو بہتر ٹھکانا فراہم کرنے کا کچھ ٹھوس کام بھی کریں۔
اگر آپ نے لفظ ’کارِ ثواب‘ سنا ہے تو اسی کو کارِثواب کہتے ہیں۔
کتابیں کچرے کے ڈھیر پر