لیکن مودودی مرحوم کو اعلٰی ان معنوں میں لیا نہیں جاتا جن معنوں میں احمد رضا کو لیا جاتا ہے ۔۔ بلکہ ان کے لیے تو (رض) بھی لکھا جاتا ہے ۔۔ اور ان کے اور ان کے جانشینوں کے "کارنامے" انھیں کسی اور طرح کا اعلٰی ثابت کرتے ہیں ۔۔ جو اکثر انبیاء کے لیے بھی ثابت نہیں ہوتا ۔۔
تحقیق کے لیے ان کی کتب اور ویب سائٹ موجود ہے ۔۔ آزمائش شرط ہے ۔۔۔
ویسے کچھ اور احباب کی بھی ہیں مگر نقص امن کا اندیشہ ہے ورنہ ۔۔۔۔
وسلام
آپ معنی کی تشریح کرنے والے کب سے بن گئے ۔ آپ میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ جہاں مودودی کے ساتھ مرحوم لکھا ہے وہاں احمد رضا کے ساتھ بھی لکھ دیتے۔
حضرت رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا قصور یہی ہے کہ رد وہابیت کرتے تھے مگر مودودی صاحب تو وہابیت کے موید ہیں لہذا ان کے لیے لازمی طور پر آپ کے دل میں نرم گوشہ ہونا چاہیے۔
حضرت رضا بریلوی کیا تھے اور ان کے بارے میں علما کی کیا رائے ہے ، آپ کے مطالعہ کے لیے حاضر ہے۔
جسٹس ملک غلام علی نائب مولوی ابوالاعلی مودودی
حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں۔ ان کی بعض تصانیف اور فتاوی کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی ہے وہ بہت کم علما میں پائی جاتی ہے اور عشق خدا و رسول تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔
بحوالہ : ہفت روزہ شہاب لاہور 20 نومبر 1966
مولانا خلیل الرحمن سہارن پوری نے مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت کے ایک اجلاس منعقدہ 1303 ھجری میں علم الحدیث پر آپ کی ایک محققانہ اور پر مغز تقریر سن کر اپنا یہ تاثر بیان کیا:
اگر اس وقت میرے والد ماجد مولانا علی احمد محدث سہارن پوری محشی بخاری ہوتے تو وہ آپ کے تبحر علمی کی دل کھول کر داد دیتے اور انہیں اس کا حق بھی تھا۔
مولانا وصی احمد محدث سورتی اور مولانا محمد علی مونگیری بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء نے بھی اس کی تائید فرمائی۔
بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور اپریل 1977 مقالہ مولانا محمود احمد قادری
دوران حج دینی و علمی موضوعات پر تبادلہ خیالات اور آْپ کی بعض کتب و رسائل کے مطالعہ کے بعد علماء حرمین پر جو تاثر قائم ہوا اس کے بارے میں
جناب ابوالحسن علی ندوی تحریر کرتے ہیں:
وہ حضرات آپ کے وفور علم ، فقہی متون و مسائل خلافیہ پر دقت نظر ، وسعت معلومات ، سرعت تحریر اور ذکاوت طبع سے حیران رہ گئے۔
بحوالہ نزہۃ الخواطر ص 39 جلد 8
حکیم عبدالحی رائے بریلوی سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو نے لکھا ہے:
بہت سے فنون بالخصوص فقہ و اصول میں اپنے ہم عصروں پر فائق تھے۔
نزہۃ الخواطر ص 8 جلد 8
شیخ المعقولات مولوی محمد شریف کشمیری صدر المدرسین مدرسہ خیر المدارس ملتان تو عالم استعجاب میں یہاں تک کہہ اٹھتے ہیں کہ
وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اس کی تحقیقات علماء کو دنگ کردیتی ہے۔
صفحہ 82 ، الشاہ احمد رضا ، مکتبہ فریدیہ ساھیوال۔
سعید اکبر آبادی صاحب فاضل دیوبند سابق صدر شعبہ سنی دینیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا مشہور علمی
ماہنامہ برہان دہلی رقم طراز ہے
مولانا احمد رضا خان بریلوی زبردست صلاحیت کے مالک تھے، ان کی عبقریت کا لوہا پورے ملک نے مانا۔
برہان دہلی شمارہ اپریل 1974
جناب محمد دین کلیم صاحب مورخ لاہور لکھتے ہیں
آپ کے تبحر علمی کا صرف برصغیر پاک و ہند کے علماء نے تعریف نے کی بلکہ عرب و عجم کے علماء و فضلا نے آپ کے علوم و فنون سے استفادہ کیا ہے۔
ماہنامہ عرفات لاہور ستمبر اکتوبر 1975
کینز کو اس کی خدمات پر اعلی ترین اعزاز مل سکتا ہے کہ اس نے وہ چیز دریافت کرلی تھی جس کو 24 سال قبل امام احمد رضا خان شائع کروا چکے تھے۔
ملاحظہ ہو مقالہ
:
فاضل بریلوی کے معاشی نکات از پروفیسر محمد رفیع اللہ صدیقی ایم اے ، ایم ایس کوئز یونیورسٹی کینیڈا
شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کے ذاتی تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد احمد علی ایم اے ڈی فل آکسفورڈ مہتمم بیت القرآن لاہور لکھتے ہیں
غالبا 1933 کا واقعہ ہے کہ علامہ اقبال مسلم یونیورسٹی میں موجود تھے جس میں ، میں بھی موجود تھا۔ دوران گفتگو مولانا احمد رضا خان بریلوی کا تذکرہ آگیا۔ علامہ مرحوم نے مولانا بریلوی کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے ہوئے کہا
ہندوستان کے دور آخر میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے علامہ مرحوم نے فرمایا "میں نے ان کے فتاوی کے مطالعہ سے یہ رائے قائم کی ہے اور ان کے فتاوی ان کی ذہانت ، فطانت اور جودت طبع ، کمال فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عدل ہیں"
نیز فرمایا کہ مولانا ایک دفعہ جو رائے قائم کر لیتے تھے اس پر مضبوطی سے قائم رہتے تھے ، یقینا وہ اپنی رائے کا اظہار بہت غور و فکر کے بعد کرتے تھے۔ لہذا انہیں اپنے شرعی فیصلوں اور فتاوی میں کبھی کسی تبدیلی یا رجوع کی ضرورت نہیں پڑی۔
راقم الحروف اس وقت شعبہ عربی میں لکچرر تھا۔
فقط عابد احمد علی یکم اگست 1968 بحوالہ مقالات یوم رضا جلد سوم مطبوعہ لاہور اپریل 1971
یہ سارا بیان جسے ڈاکٹر عابد احمد علی نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے اس کا فوٹو ہفت روزہ افق کراچی 22 تا 28 جنوری 1979 نے شائع کیا۔
سید امیر شاہ گیلانی سے مولانا یوسف بنوری کے والد مولانا محمد زکریا کہتے ہیں کہ:
اگر احمد رضا خاں بریلوی ہندوستاں میں فقہ حنفی کی خدمت نہ کرتے تو حنفیت شاید اس علاقے میں ختم ہوجاتی۔
مکتوب از سید امیر شاہ گیلانی از پشاور محررہ 26 صفر 1394 ہجری بنام ڈاکٹر مسعود احمد ایم اے ، پی ایچ ڈی۔
جماعت اسلامی کا ترجمان
ماہنامہ الحسنات رام پور لکھتا ہے
فقہ میں جد الممتار اور فتاوی رضویہ کے علاوہ ایک اور علمی کارنامہ ترجمہ قرآن مجید ہے جو 1911 میں کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن کے نام سے منظر عام پر آیا۔
الحسنات شخصیات نمبر سالنامہ 1979 ص 55-54
محمد یوسف اصلاحی:امیر جماعت اسلامی ھند محمد یوسف اصلاحی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میں بریلی میں پیدا ہوا ، میرے والد جہاں قیام پذیر تھے ، مولانا احمد رضا خاں کے مرید تو نہیں تھے لیکن رسول اکرم سے ان کی محبت کے دیوانے تھے۔
ہفت روزہ عوام نئی دہلی
ڈاکٹر سید عبد اللہ :وہ بلاشبہ جید عالم دین ، متبحر حکیم ، عبقری فقیہہ ، صاحب نظر مفسر قرآن ، عظیم محدث ، اور سحر بیان خطیب تھے۔ لیکن ان تمام درجات رفیعہ سے بھی بلند تر ان کا ایک درجہ ہے اور وہ ہے عاشق رسول کا۔
اور
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز
بحیثیت ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی
(شیخ الجامعہ، جامعہ کراچی)