السلام علیکم، استاذِ محترم، اعجاز عبید صاحب !
اسی کی دہائی میں لکھی گئی ایک غزل بغیر کسی ترمیم کے برائے اصلاح حاضر ہے۔ رہنمائی مطلوب ہے۔
والسلام
کتنے سادہ کتنے ناداں لوگ تمھاری بستی کے
ہم سے بھی ہیں نالاں نالاں لوگ تمھاری بستی کے
ہو جائیں دو چار تھپیڑے ان کو بھی جو ہلکے سے
بن جائیں گے سارے انساں لوگ تمھاری بستی کے
آوارہ پھرتے ہیں ہر سُو کچھ بھی تیرا پاس نہیں
چاک ہیں داماں، چاک گریباں لوگ تمھاری بستی کے
کچھ کہہ لیں گے کچھ سُن لیں گے ہم ان سے تنہائی میں
جس دن ہوں گے میرے مہماں لوگ تمھاری بستی کے
چھین کے لے دو ان کو روٹی، یہ بھوکے مر جائیں گے
کھا جاتے ہیں بیچ کے ایماں لوگ تمھاری بستی کے
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
بھول گئے سب تیرے احساں لوگ تمھاری بستی کے
روک لو ان ہاتھوں کو راقم ورنہ تم پچھتاؤ گے
ہو تے رہیں گے یوں ہی ارزاں لوگ تمھاری بستی کے
اسی کی دہائی میں لکھی گئی ایک غزل بغیر کسی ترمیم کے برائے اصلاح حاضر ہے۔ رہنمائی مطلوب ہے۔
والسلام
کتنے سادہ کتنے ناداں لوگ تمھاری بستی کے
ہم سے بھی ہیں نالاں نالاں لوگ تمھاری بستی کے
ہو جائیں دو چار تھپیڑے ان کو بھی جو ہلکے سے
بن جائیں گے سارے انساں لوگ تمھاری بستی کے
آوارہ پھرتے ہیں ہر سُو کچھ بھی تیرا پاس نہیں
چاک ہیں داماں، چاک گریباں لوگ تمھاری بستی کے
کچھ کہہ لیں گے کچھ سُن لیں گے ہم ان سے تنہائی میں
جس دن ہوں گے میرے مہماں لوگ تمھاری بستی کے
چھین کے لے دو ان کو روٹی، یہ بھوکے مر جائیں گے
کھا جاتے ہیں بیچ کے ایماں لوگ تمھاری بستی کے
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
بھول گئے سب تیرے احساں لوگ تمھاری بستی کے
روک لو ان ہاتھوں کو راقم ورنہ تم پچھتاؤ گے
ہو تے رہیں گے یوں ہی ارزاں لوگ تمھاری بستی کے