کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں - عزم بہزاد

محمداحمد

لائبریرین

غزل


کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگادی خود سے باہر انے میں

ایک نگاہ کا سناٹا ہے اک آواز کا بنجر پن
میں کتنا تنہا بیٹھا تھا قربت کے ویرانے میں

بستر سے کروٹ کا رشتہ ٹوٹ گیا اک یاد کے ساتھ
خواب سرہانے سے اُٹھ بیٹھا تکیے کو سرکانے میں

آج اُس پُھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں

بات بنانے والی راتیں رنگ نکھارنے والے دن
کن رستوں پر چھوڑ آیا میں عُمر کا ساتھ نبھانے میں

ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا
کیسے کیسے وصل گُزارے ہجر کا زخم چھپانے میں

جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا
میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں

ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں

پہلے دل کو آس دل کر بے پروا ہو جاتا تھا
اب تو عزم بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں


عزم بہزاد
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگادی خود سے باہر آنے میں

جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا
میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں

ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں


بہت ہی خوب :)

بہت شکریہ محمد احمد
 
Top