ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
کتنے چراغ جل اٹھے ، کتنے سراغ مل گئے
آنکھیں جنوں کی کیا کھلیں ، اپنے تو ہونٹ سل گئے
ایسے پلٹ گئی ہوا دل کی کتاب کے ورق
یادوں کے کچھ گلاب جو کھوئے ہوئے تھے مل گئے
اک چہرے کی شباہتیں نکھریں مری نظر کے ساتھ
شاخ ِ نظر جھکی جدھر کچھ عکس تازہ کھل گئے
اپنی تو خیر راہ میں تھیں کرچیاں ہی کرچیاں
پھولوں پہ چل رہے تھے جو اُن کے بھی پاؤں چھل گئے
دیکھا نہیں کہ مصلحت کے ہیں تقاضے کس طرف
دل سے بلایا جس نے جب ، ہم تو بہ جان ودل گئے
اُن کی نظر سے کیا گرے اک زلزلہ سا اٹھ گیا
پندار کے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل گئے
ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵
آنکھیں جنوں کی کیا کھلیں ، اپنے تو ہونٹ سل گئے
ایسے پلٹ گئی ہوا دل کی کتاب کے ورق
یادوں کے کچھ گلاب جو کھوئے ہوئے تھے مل گئے
اک چہرے کی شباہتیں نکھریں مری نظر کے ساتھ
شاخ ِ نظر جھکی جدھر کچھ عکس تازہ کھل گئے
اپنی تو خیر راہ میں تھیں کرچیاں ہی کرچیاں
پھولوں پہ چل رہے تھے جو اُن کے بھی پاؤں چھل گئے
دیکھا نہیں کہ مصلحت کے ہیں تقاضے کس طرف
دل سے بلایا جس نے جب ، ہم تو بہ جان ودل گئے
اُن کی نظر سے کیا گرے اک زلزلہ سا اٹھ گیا
پندار کے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل گئے
ظہیراحمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵